میرے والد صاحب مرحوم کی ایک غزل۔یہ جبیں لا مکاں سے ملتی ہے

سید عاطف علی

لائبریرین
میری یاد داشت اور ریکارڈ میں اس غزل کے یہی اشعار میسر آسکے۔

یہ جبیں لا مکاں سے ملتی ہے
جب ترے آستاں سے ملتی ہے

ایک نامہر باں سے اپنی نظر
جیسے اک مہر باں سے ملتی ہے

نوجوانوں سے پوچھتے ہیں پیر
نوجوانی کہاں سے ملتی ہے

میکدے بند ہیں ضیاؔ جب سے
شہر میں ہر دکاں سے ملتی ہے

 
آخری تدوین:

فرحت کیانی

لائبریرین
نوجوانوں سے پوچھتے ہیں پیر
نوجوانی کہاں سے ملتی ہے
واہ واہ. بہت خوب کلام. شیئرنگ کے لیے بہت شکریہ. :)
کیا آپ نے کبهی اپنے والد کا مجموعہ کلام چهپوانے یا ترتیب دینے کا سوچا ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نوجوانوں سے پوچھتے ہیں پیر
نوجوانی کہاں سے ملتی ہے
واہ واہ. بہت خوب کلام. شیئرنگ کے لیے بہت شکریہ. :)
کیا آپ نے کبهی اپنے والد کا مجموعہ کلام چهپوانے یا ترتیب دینے کا سوچا ہے؟

والد صاحب سید خورشید علی ضیا نے اپنے کلامکی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں خاطر خواہ نہیں کیا نہ جانے کیا مسائل تھے۔ فرماتے تھے کہ بہت سا کلام جےپور سےپاکستا ن آتے ہوے ضائع ہوگیا تھا۔ اور اخیر عمر میں یادداشت بھی کافی کمزور ہو گئی تھی۔ میں نے کچھ پرانی ڈائریوں اور کچھ پرانے رسالوں سے لکھ کر محفوظ کیں مگر مقدار کوئی خاص نہیں چند ایک گنی چنی غزلیں ہیں کچھ نظمیں موضوعاتی کچھ نعتیں کچھ منقبتیں کچھ سلام ۔ پاکستان جا کر ایک مرتبہ تفصیلی جائزہ لوں گا اور ان شاءللہ موقع ملا تو چھپواؤں گا۔آپ نے اپنے مجموعے کا نام ضیائے خورشید رکھا تھا۔۔یہاں محفل میں اکثر و بیشتر غزلیات وغیرہ شیئر کر تا رہتا ہوں۔
بہت بہت آداب۔
 
Top