میرے والد صاحب کی ایک غزل۔ضیائے خورشید سے انتخاب۔سبھی چپ ہیں تماشاےٴ عروج آثار سے پہلے

سید عاطف علی

لائبریرین
سبھی چپ ہیں تماشاےٴ عروج آثار سے پہلے
یہ کیسی ابتلا ہے، خندقیں ہیں دار سے پہلے


عراق ایرا ن کی یلغار ہے امن و اخوت پر
الہی روک دے تلوار کو تلوار سے پہلے


گلوں میں ، چاند میں ،سورج میں ،کلیوں میں، ستاروں میں
تجھے میں دیکھ لیتا ہوں ترے دیدار سے پہلے


ضیاء میری جبیں کے زاوےٴ ناپے گئے لیکن
مرے سجدے کہاں ملتے در ِ دلدار سے پہلے

۔۔۔۔
سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پرانی ڈائری سےاس غزل کا ایک مطلع اور ملا ۔

دھواں قلب و نظر میں چشم گوہر بار سے پہلے
اندھیرا ہے گلی میں۔ رونق بازار سے پہلے


سبھی چپ ہیں تماشاےٴ عروج آثار سے پہلے
یہ کیسی ابتلا ہے، خندقیں ہیں دار سے پہلے

عراق ایرا ن کی یلغار ہے امن و اخوت پر
الہی روک دے تلوار کو تلوار سے پہلے

گلوں میں چاند میں سورج میں کلیوں میں ستاروں میں
تجھے میں دیکھ لیتا ہوں ترے دیدار سے پہلے

ضیاء میری جبیں کے زاوئیے ناپے گئے لیکن
مرے سجدے کہاں ملتے در ِ دلدار سے پہلے
۔۔۔۔
سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری​
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اضافہ وتصحیح ۔

دھواں قلب و نظر میں چشمِ گوہر بار سے پہلے
اندھیرا ہے گلی میں، رونقِ بازار سے پہلے

سبھی چپ ہیں تماشائے عروج آثار سے پہلے
یہ کیسی ابتلا ہے، خندقیں ہیں دار سے پہلے

عراق ایرا ن کی یلغار ہے امن و اخوت پر
الہی روک دے تلوار کو تلوار سے پہلے

کوئی میخوار زیر سایۂ مسجد ملا مجھ کو
کہیں اک ناتواں تھا دھوپ میں دیوار سے پہلے

مہ وخورشید میں تاروں میں پھولوں میں بیاباں میں
تجھے میں دیکھ لیتا ہوں ترے دیدار سے پہلے

ضیاء میری جبیں کے زاویے ناپے گئے لیکن
مرے سجدے کہاں ملتے درِ دلدار سے پہلے
۔۔
سید خورشید علی ضیاء عزیزی جے پوری​
 
آخری تدوین:
Top