داغ میرے پیامبر سے اُنہیں برہمی ہوئی - داغ دہلوی

کاشفی

محفلین
غزل
(داغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ)

میرے پیامبر سے اُنہیں برہمی ہوئی
یارب کسی کی بات نہ بگڑے بنی ہوئی

دل کی لگی ہوئی بھی کوئی دل لگی ہوئی
بُجھتی نہیں بجھائے سے ایسی لگی ہوئی

میّت پہ میری آکے دل اُن کا دہل گیا
تعظیم کو جو لاش مری اُٹھ کھڑی ہوئی

وقتِ شگافِ سینہ مکدّر جو تھا یہ دل
اُس کی چھُری بھی خاک میں نکلی بھری ہوئی

واعظ مے طہور کی خواہش ہے اس لیئے
دنیا میں جو شراب ہے اپنی ہے پی ہوئی

بچ کر نہ چلئے راہ سے میری جنابِ خضر
یہ رہروی ہوئی کہ سلامت روی ہوئی

سُلگائے سے سُلگتی نہیں آگ عشق کی
ایسی کچھ آج کل ہے طبیعت بجھی ہوئی

ہاں ہاں ذرا نگہ سے نگہ دل سے دل لڑے
یا چوٹ آپ پر ہوئی یا آپ کی ہوئی

سچ ہے رفیق وہ ہے جو دے آخرت کا ساتھ
بعدِ فنا نہ مجھ سے جدا بیکسی ہوئی

کہتا ہوں آج اور نئی اپنی داستاں
تم کو مزا نہ دے گی کہانی سُنی ہوئی

چکر میں بحر غم کے یہ حسرت بھرا ہے دل
گرداب میں پھنسی مری کشتی بھری ہوئی

صبحِ شب ِوصال نہ تھا کوئی میرے پاس
اِک شمع ساری رات کی وہ بھی جلی ہوئی

خلقت کا ازدہام ہے کیوں میری قبر پر
برباد اُن کی وجہ سے کیا بیکسی ہوئی

تم ذکر پر رقیب کے شرمائے جاتے ہو
یہ بات کہہ کے خود مجھے شرمندگی ہوئی

اُس بدگماں کو دے کوئی جاکر مبارکی
دشمن کے ساتھ آج مری دوستی ہوئی

جاتے نہیں جنازہء عاشق کے ساتھ ساتھ
کیا پانوں میں ہے آپ کے مہندی لگی ہوئی

اہلِ عزا کو اُس نے تو دیوانہ کر دیا
جو مجھ کو رو رہے تھے اب اُن کی ہنسی ہوئی

کی چھیڑ چھاڑ داغ نے تم سے بُرا کیا
اب درگزر کرو کہ خطا جو ہوئی، ہوئی
 
Top