مزمل شیخ بسمل
محفلین
یہی ہے بسمل مرا عقیدہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
وہ بحرِ الفت ہے میں کنارہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
ہے منتخب یہ ازل سے رشتہ کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
نہ اسنے سوچا نہ میں نے سمجھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
ہوا ہے وہ امتزاج پیدا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
ہے دونوں قالب میں روح تنہا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
تمام عالم کی جستجو ہے ہوئے ہیں دو ایک جان کیسے
یونہی ہے حیران چشمِ بینا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
وہ مجھ میں کھویا میں اس میں کھویا جہان مین لاولد ہیں گویا
کرشمہ الفت نے یہ دکھایا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں
وہ میری پتلی میں ہے سراپا میں اسکی پتلی میں ہوں سراپا
خد اپنی آنکھوں میں آج دیکھا کہ یار مجھ میں میں یار میں ہوں