عسکری
معطل
جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہماری فیملی ایک غریب مڈل کلا فیملی تھی ۔ گھر میں کچھ اتنا پیسے کی ریل پیل نا تھی ہفتے میں ایک آدھ بار گوشت مرغی بنتی تو باقی دنوں سبزی دال (جو اس وقت غریب کی پہنچ مین تھی ) بنتی تھی ۔ہم سکول سے واپس آتے تو بھوک بھوک کرتے گھر میں ادھر امی ڈنڈا دکھاتی کہ میں اکیلی عورت جا کر لے آتی کیا سبزی جاؤ کچھ لے آؤ تو بناؤں نکمو ۔ آج کوئی ریڑھی والا بھی گلی سے نہیں گزرا ۔ ان دنوں میرے والد متحدہ عرب امارات کی منسٹری اوقاف میں جاب کرتے ہوئے میں پردیس کاٹ رہے تھے ۔ ہم بھاگ کر جاتے پل پر سبزی کی دو دکانیں تھی کچھ لاتے جو بنتا مزے سے کھا جاتے ۔ تب اس کم تیل کم مصالحے بغیر کئی ضروری چیزوں کے بنے کھانے سے ہمیں بد ہضمی ہوئی نا گیس نا کوئی اور بیماری جو اب ہمیں فائیو سٹار ہوٹلز اور دنیا کی بڑی فاسٹ فوڈ چینز اچھے اچھے ہوٹلوں سے کھا کر ہو رہی ہے ۔۔ تب ہم نا کھانے کے بعد میٹھا کھاتے نا پیپسی پیتے نا کوئی ہم سے پوچھتا کہ کیا لیں گے کیا نا لیں گے ۔ کھانے کی ایک پلیٹ جسے سرائیکی میں کٹوری کہتے ہیں وہ اور کھجور کے پتوں سے بنی روٹی رکھنے والی تھالی جس کا اب مجھے نام بھی بھول رہا ہے بس اور نلکے کا تازہ پانی ۔ پھر بھی ہم لال سرخ صحت مند رہتے تھے اپنی بھینسوں کا دودھ پی لیتے شام کو البتہ ۔ یا صبح کو لسی اور مکھن بھی ۔ پر ایسا کچھ نا تھا جیسا اب ہے کہ وقت کو پر لگے ہوں کھانے کا ٹائم نا ہو اور پیسا بے بہا ہو جسے استمال نا کیا جا سکے
مجھے آج انٹرنیٹ پر کہیں سے ایک چیز ملی ہے جسے دیکھ کر مجھے آج کے لیے تو اپنے آپ سے اپنے کھانے پینے سے اور اس لائف سے نفرت سی ہو رہی ہے ۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا سب کچھ چھوٹتا ہی گیا شاید جو اب پچھتا رہے ہیں
تقریبا 12-13 سال پہلے میں نے یہ سبزی کھائی تھی اور اب اتنے سال سے دیکھی بھی نہیں ۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ میں نے کئی چیزیں اپنی نئی لائف میں کھو دی ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے ۔ اسے انگلش میں nadur/lotus root اور پنجابی میں بھیں سرائیکی میں بھے کہتے ہیں اس کے ہمارے وہاں پکوڑے بھی بنتے تھے اور گھر میں سالن بھی بناتے تھے ۔ وہاں اس وقت 8-10 روپے کلو ملتے تھے اور میں مزے سے کھاتا تھا انہیں شاید پہلے بوائل کیا جاتا ہے کاٹ کر اور پھر پکایا جاتا ہے سالن مین ہلکا سا تیل نظر آتا تھا بس اب تو ذائقہ بھی یاد نہیں اب میں یہ کہاں سے کھاؤں
چپس بنے ہوئے
کشمیری طریقے سے بنے
سالن بنا ہوا
مجھے آج انٹرنیٹ پر کہیں سے ایک چیز ملی ہے جسے دیکھ کر مجھے آج کے لیے تو اپنے آپ سے اپنے کھانے پینے سے اور اس لائف سے نفرت سی ہو رہی ہے ۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا سب کچھ چھوٹتا ہی گیا شاید جو اب پچھتا رہے ہیں
تقریبا 12-13 سال پہلے میں نے یہ سبزی کھائی تھی اور اب اتنے سال سے دیکھی بھی نہیں ۔ مجھے سخت افسوس ہے کہ میں نے کئی چیزیں اپنی نئی لائف میں کھو دی ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے ۔ اسے انگلش میں nadur/lotus root اور پنجابی میں بھیں سرائیکی میں بھے کہتے ہیں اس کے ہمارے وہاں پکوڑے بھی بنتے تھے اور گھر میں سالن بھی بناتے تھے ۔ وہاں اس وقت 8-10 روپے کلو ملتے تھے اور میں مزے سے کھاتا تھا انہیں شاید پہلے بوائل کیا جاتا ہے کاٹ کر اور پھر پکایا جاتا ہے سالن مین ہلکا سا تیل نظر آتا تھا بس اب تو ذائقہ بھی یاد نہیں اب میں یہ کہاں سے کھاؤں
چپس بنے ہوئے
کشمیری طریقے سے بنے
سالن بنا ہوا