میرے کچھ تازہ اشعار ۔تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے

سید عاطف علی

لائبریرین
۔چند تازہ اشعار تغزل کے پیش ہیں ۔اساتذہ اور دوستوں سے کچھ تنقید اور تبصرے کی گزارش ہے کہ کئی جگہ کچھ اطمئنان نہیں ۔
چھٹا شعر عرفی شیرازی کے ایک فارسی شعر سے ماخوذ ہے ۔۔ اور آخری مصرع خواجہ میر درد کی تضمینی بندش ہے۔


تجھ پاس ہے جو چیز، وہ گل پاس نہیں ہے
وہ رنگ نہیں اس میں وہ بوُ باس نہیں ہے

لب لعلِ بدخشاں ہیں تو آنکھیں ہیں زمرُّد
طرّے کو ترے حاجت ِ الماس نہیں ہے

ہے خون ِ تمنّا سے مزیّن مرا نامہ
گوحاشیہ زیبائی ءِ قرطاس نہیں ہے

کیوں کر ہو بیاں لذّتِ اشک ِ شب ِ مہجور
اس کا کوئی پیمانہ ؤ مقیاس نہیں ہے

اک خواب میں مستور ہے دنیا کی حقیقت
اس بات کا ہم کو مگر احساس نہیں ہے

نازاں ہے سرابوں کا طلسمات سمجھ کر!
ناداں ہے ابھی تو ! کہ تجھے پیاس نہیں ہے

کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے



ادراک کی سرحد سے میں خود لوٹ کے آیا
اب یوں نہ کہو حد کا مجھے پاس نہیں ہے

امید اجابت ہے جو یہ ہاتھ جڑے ہیں
کاسہ مرا مجبورئ افلاس نہیں ہے

ہر شب ہے شب ِ قدر تجھے قدر اگر ہو
" ہر دم دمِ عیسی ہے تجھے پاس نہیں ہے "


۔۔۔
سید عاطف علی

 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بهائی ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اپنی رائے پیش کرنے جا رہا ہوں - امید کرتا ہوں آپ برا نہیں مانیں گے -
ردیف بهی نہیں یا ہی نہیں ہونا چاہئے تهی ( میرے خیال میں )
تجه پاس اور گل پاس میں مسئلہ ہے -
بو باس کی ترکیب پہلی بار سنی شاید اسی لئے مجهے عجیب لگی اور ہو سکتا ہے کہ ہم معنی الفاظ ہیں اس لئے -
لذت اشک شب مہجور- میں اس ترکیب کو سمجها تو نہیں مگر کافی الجها دینے والی ہے -
اس بات ہم کو مگر احساس نہیں ہے - اس میں کوئی لفظ رہ گیا آپ سے شاید -
نازاں ہے سرابوں کا طلسمات -- یہاں طلسم کا محل معلوم ہوتا ہے - یا سرابوں کو طلسمات ہونا چاہئے تها -
کہتے ہو کہ دنیا ہے --اور یہاں یہ کا ہونا عجیب لگا مجهے -
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بهائی ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اپنی رائے پیش کرنے جا رہا ہوں - امید کرتا ہوں آپ برا نہیں مانیں گے -
ردیف بهی نہیں یا ہی نہیں ہونا چاہئے تهی ( میرے خیال میں )
تجه پاس اور گل پاس میں مسئلہ ہے -
بو باس کی ترکیب پہلی بار سنی شاید اسی لئے مجهے عجیب لگی اور ہو سکتا ہے کہ ہم معنی الفاظ ہیں اس لئے -
لذت اشک شب مہجور- میں اس ترکیب کو سمجها تو نہیں مگر کافی الجها دینے والی ہے -
اس بات ہم کو مگر احساس نہیں ہے - اس میں کوئی لفظ رہ گیا آپ سے شاید -
نازاں ہے سرابوں کا طلسمات -- یہاں طلسم کا محل معلوم ہوتا ہے - یا سرابوں کو طلسمات ہونا چاہئے تها -
کہتے ہو کہ دنیا ہے --اور یہاں یہ کا ہونا عجیب لگا مجهے -
بہت شکریہ عظیم۔آپ کی توجہ کا ۔ مجھے خوشی ہوئی آپ کا تبصرہ دیکھ کر ۔ ایک املا کی تصحیح کا شکریہ جو درست کر دیا گیا ہے۔در اصل اس غزل کے کچھ اشعار قدیم اسلوب میں کہے گئے ہیں۔
 
آہا سبحان اللہ
استادانہ لب و لہجہ لئے ہوئے
بھاری بھرکم الفاظ لئے ہوئے پیاری غزل
ڈھیروں دعائیں
یہ شعر بہت اچھا لگا
کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آہا سبحان اللہ
استادانہ لب و لہجہ لئے ہوئے
بھاری بھرکم الفاظ لئے ہوئے پیاری غزل
ڈھیروں دعائیں
یہ شعر بہت اچھا لگا
کہتے ہو کہ دنیا ہے یہ امید پہ قائم !
یہ وعدہءِ موہوم ہمیں راس نہیں ہے
بہت شکریہ محمدعلم اللہ اصلاحی بھائی ۔ آپ کہاں غائب ہیں بھئی عرصہ دراز سے ؟ :)
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ محمدعلم اللہ اصلاحی بھائی ۔ آپ کہاں غائب ہیں بھئی عرصہ دراز سے ؟ :)
بھائی جان کچھ تعلیمی مصروفیات اور کچھ ذاتی پریشانیوں کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے پا رہا ہوں ۔
بہت جلد انشاء اللہ فعال ہو جاوں گا ۔
لکھنے کا کام تو کافی دنوں سے رکا ہوا ہے ۔مجھے کود احساس ہے ۔ کیا کروں ۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اک خواب میں مستور ہے دنیا کی حقیقت
اس بات کا ہم کو مگر احساس نہیں ہے


واہ۔

خوبصورت غزل ہے عاطف بھائی ۔۔۔!

بہت سی داد قبول کیجے۔
 
محترم جناب عظیم صاحب! آپ کی طرح اپنی آراء پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ، متفق ہونا ضروری نہیں۔ :)

ردیف بهی نہیں یا ہی نہیں ہونا چاہئے تهی ( میرے خیال میں )
آپ کی تجویز کردہ دونوں ردیفوں میں بیانیہ کمزور ہے ، جبکہ "نہیں ہے" بالکل مناسب لگ رہی ہے۔

تجه پاس اور گل پاس میں مسئلہ ہے -
قدیم طرز ہے۔
غالب کا شعر ملاحظہ فرمائیے:
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے

بو باس کی ترکیب پہلی بار سنی شاید اسی لئے مجهے عجیب لگی اور ہو سکتا ہے کہ ہم معنی الفاظ ہیں اس لئے -
"بو" اور "باس" دونوں "مہک" کو کہتے ہیں اور پھول کی خوشبو کو "بوباس" کہتے ہیں۔

لذت اشک شب مہجور- میں اس ترکیب کو سمجها تو نہیں مگر کافی الجها دینے والی ہے -
یہ بہت عمدہ انداز میں عاطف بھائی نے فرقت کی رات نکلنے والے آنسو کی لذت کو پیش کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ظرف کو مظروف کی صفت عطا کرکے ہجرت اور جدائی کی سنگینی کا بھی احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ :)

نازاں ہے سرابوں کا طلسمات -- یہاں طلسم کا محل معلوم ہوتا ہے - یا سرابوں کو طلسمات ہونا چاہئے تها -
"سرابوں" جمع کی مناسبت سے "طلسمات" زیادہ بہتر ہے۔
نیز "کا" کو "کو" کرنے میں لطف کم ہوجائے گا کیونکہ "سرابوں کا نازاں" میں معنویت زیادہ ہے بنسبت صرف "نازاں" کے۔

کہتے ہو کہ دنیا ہے --اور یہاں یہ کا ہونا عجیب لگا مجهے۔
مجھے نہیں لگا۔ :)
 

عظیم

محفلین
محترم جناب عظیم صاحب! آپ کی طرح اپنی آراء پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ، متفق ہونا ضروری نہیں۔ :)


آپ کی تجویز کردہ دونوں ردیفوں میں بیانیہ کمزور ہے ، جبکہ "نہیں ہے" بالکل مناسب لگ رہی ہے۔


قدیم طرز ہے۔
غالب کا شعر ملاحظہ فرمائیے:
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے


"بو" اور "باس" دونوں "مہک" کو کہتے ہیں اور پھول کی خوشبو کو "بوباس" کہتے ہیں۔


یہ بہت عمدہ انداز میں عاطف بھائی نے فرقت کی رات نکلنے والے آنسو کی لذت کو پیش کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے ظرف کو مظروف کی صفت عطا کرکے ہجرت اور جدائی کی سنگینی کا بھی احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ :)


"سرابوں" جمع کی مناسبت سے "طلسمات" زیادہ بہتر ہے۔
نیز "کا" کو "کو" کرنے میں لطف کم ہوجائے گا کیونکہ "سرابوں کا نازاں" میں معنویت زیادہ ہے بنسبت صرف "نازاں" کے۔


مجھے نہیں لگا۔ :)


اللہ بهلا کرے - بهائی !
 
Top