عاطف بھائی اشارہ اسی طرف تھا کہ مصرع کی موجودہ صورت کے بجائے اگر دردِ ہجر کی ترکیب استعمال کرلیں تو سکتہ ختم ہوجاتا ہے اور معنی پر بھی کوئی اتنا خاص فرق نہین پڑتا ۔ مضمون کم و بیش برقرار رہتا ہے ۔
شب ہائے دردِ ہجر کی کوئی نہیں دوا
تیرا خیال گر نہ ہو درمانِ آرزو
محترمی الف عین صاحب کی رائے کو بھی دیکھیں ۔ آپ یقینا بہتر صورت نکال سکتے ہیں ۔
افسوس جو اشارہ آپ نے کیا وہ میرے لیے کافی ثابت نہ ہوا۔یہ مصرع اسی طرح رواں ہے جیسے آپ نے فرمایا سو اسی طرح کیے دیتا ہوں اور نقارہء خدا کی تائید کرکے مامون ہونے میں عافیت جانتا ہوں ۔
اور اپنی تقدیرات و احساسات کو محبوس کیے دیتاہوں ، اگر چہ اس میں ایک قدرے قدیم شعری اسلوب کا رنگ مجھے محسوس ہوتا ہے جو مجھے پسند آتا ہے۔
اس غزل میں لیکن چونکہ شستہ و سلیس انداز اختیار کیا ہے سو یہی ٹھیک بھی لگتا ہے۔
بہت خوب۔ میں بھی متفق ہوں کہ شب ہائے ہجر والا مصرع بدل دیں، محض کوما سے کام نہیں چلے گا۔
اس کے علاوہ
اک ہے شب فراق میں امید کی کرن
یہ ہی بنے گی شمع شبستان آرزو
بھی کمزور اور عدم روانی کا شکار ہے۔ ’اک‘ اور ’یہ ہی‘ کے باعث،
اعجاز بھائ۔ بجا فرمایا ، ذکر کردہ شعر میں کچھ اور شعروں کی طرح نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔اس کی کئی طرح ترتیب بن رہی تھی ۔ایک شاید یہ بھی تھی ۔ یہ کیسی رہے گی ؟
امید کی کرن جو بچی تھی شب فراق
آخر بنی وہ شمعِ شبستان آرزو