آج کل پاکستان کے سیلاب کے پیشِ نظر میر تقی میر کا یہ مصرع بار بار دہرایا جاتا ہے
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اس مصرعے کو پروین شاکر نے بھی اپنی غزل میں استعمال کیا ہے
اے آنکھ، اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
کھرے اور کھوٹے کا فرق جاننے کے لیے میر کا پورا شعر بھی سن لیجیئے:
کن نیندوں سووتی ہے تو اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اسی غزل میں ایک اور شعر بھی ہمارے مفید مطلب ہے:
نے دل رہا بجائے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
میر کے ہاں خاصی بڑی تعداد میں اسی قسم کے “سیلابی“ اشعار پائے جاتے ہیں۔چند مثالیں پیش ہیں:
سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا، آیا تھا اک سیلاب سا
نیز
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
نیز
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہہ کے جا لگے
نیز
کیا جانوں چشمِ تر کے ادھر دل پہ کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی
دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ سیلاب اور طغیانی کے موضوع پر میر یا کسی اور اردو شاعر کے اشعار یہاں درج کریں۔ پیشگی شکریہ۔
زیف
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اس مصرعے کو پروین شاکر نے بھی اپنی غزل میں استعمال کیا ہے
اے آنکھ، اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
کھرے اور کھوٹے کا فرق جاننے کے لیے میر کا پورا شعر بھی سن لیجیئے:
کن نیندوں سووتی ہے تو اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اسی غزل میں ایک اور شعر بھی ہمارے مفید مطلب ہے:
نے دل رہا بجائے نہ صبر و حواس و ہوش
آیا جو سیلِ عشق سب اسباب لے گیا
میر کے ہاں خاصی بڑی تعداد میں اسی قسم کے “سیلابی“ اشعار پائے جاتے ہیں۔چند مثالیں پیش ہیں:
سناہٹے میں جان کے ہوش و حواس و دم نہ تھا
اسباب سارا لے گیا، آیا تھا اک سیلاب سا
نیز
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
نیز
کس کو خبر ہے کشتی تباہوں کے حال کی
تختہ مگر کنارے کوئی بہہ کے جا لگے
نیز
کیا جانوں چشمِ تر کے ادھر دل پہ کیا ہوا
کس کو خبر ہے میر سمندر کے پار کی
دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ سیلاب اور طغیانی کے موضوع پر میر یا کسی اور اردو شاعر کے اشعار یہاں درج کریں۔ پیشگی شکریہ۔
زیف