حسان خان
لائبریرین
شیراز اور اہلِ شیراز کو فارسی گو ممالک کے تمام لوگ پسند کرتے ہیں، کیونکہ اسی 'خاکِ پاک' سے سعدی اور حافظ اٹھے ہیں اور یہ دو بزرگ اور صاحب دل شعراء استانبول سے لے کر ڈھاکہ اور کلکتہ کے لاکھوں لوگوں کے افکار پر قرنوں سے مسلط ہیں۔ ہم نے اپنی طفلی کے دوران دیوانِ حافظ پڑھا تھا اور بوستان و گلستان ہمارے مکتب کی درسی کتابیں تھیں۔ اس خاک سے مسلسل اہلِ علم رجال ابھرتے اور اکنافِ عالم میں دانش و بینش کے پھیلانے کی سعی کرتے رہے ہیں۔
آج سے پانچ صدیوں قبل، ان دنوں جب ہرات دانش و ہنر کا مرکز تھا اور علم پرور بادشاہ اس شہر پر حکمرانی کرتے تھے، ایک نجیب الطرفین سید شیراز سے رخصت ہوئے اور اپنے خاندان کے ہمراہ ہرات آ گئے۔ ان دانشمند مرد کا نام سید اصیل الدین عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن سید جلال الدین محمد یحیی حسینی تھا اور یہ شخص روشن روح اور دردمند دل کے حامل اور علمِ تفسیر و حدیث و انشاء میں نابغہ تھے۔
سید شیرازی سن ۸۵۷ھ میں تیموری بادشاہ سلطان ابوسعید مرزا کے دور میں ہرات تشریف لائے تھے اور خلقِ خدا کی سالوں ہدایت اور فیض رسانی کے بعد ۱۷ ربیع الثانی ۸۸۳ھ کو انتقال کر گئے اور مدرسۂ گوہرشاد کے پہلو میں سپردِ خاک کیے گئے۔ وہ درج الدرد فی سیر خیر البشر، المجتبی فی سیرۃ المصطفی، اور مقصد الاقبال در بیان مزارات ہرات وغیرہم کے مؤلف تھے۔
سید اصیل الدین کے خانوادے سے بہت سارے رجالِ دانش و معرفت ابھرتے رہے کہ جن میں سے ایک قاضی سید شکراللہ بن سید وجیہ الدین شامل ہیں جو ۹۰۶ھ میں ہرات سے قندہار چلے آئے تھے اور شاہ بیگ ارغون نے سن ۹۲۷ھ میں جنہیں بطور قاضی ٹھٹہ بھیجا تھا۔ بعد میں ان نجیب اور دانشمند مرد کی اولاد میں سے کئی بزرگ مؤلفین اور شعراء ٹھٹہ میں سامنے آئے جو کہ اُس وقت علم و ہنر کا مرکز تھا۔ ان کا خاندان ساداتِ شکراللہی کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ خاندان اپنے علم و دانش کی وجہ سے معروف تھا۔
میر علی شیر قانع بھی اسی علم و ذکاوت کے لیے معروف خاندان کے اخلاف میں سے تھے۔ وہ ۱۱۴۰ھ کو ٹھٹہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے علم و فضل حاصل کیا اور چونکہ اس وقت ٹھٹہ علم، ثقافت، ادب اور تہذیب کا مرکز تھا، اس لیے میر علی شیر نے اسی گہوارۂ ثقافت میں پرورش پائی اور شعر گوئی اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ انہوں نے اپنے لیے 'قانع' کو تخلص کے طور پر منتخب کیا۔
قانع ایک توانا مصنف، دقیق مورخ اور فارسی و سندھی زبان کے اچھے شاعر تھے۔ ان کی منزلت اور ان کے علم کا اندازہ ان کی تالیف کردہ کتب اور ان کی کی تالیفات کے تنوع سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے قریباً تیس ہزار فارسی اشعار کہے اور بیالیس کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے بعض کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ قصائد، غزلیات، ساقی نامہ اور دیگر انواعِ سخن پر مشتمل تیس ہزار اشعار کا فارسی دیوان
۲۔ مقالات الشعراء۔۔۔ ۱۱۶۴ھ کی اس تصنیف میں ایسے تقریباً ہزار فارسی گو شعراء کا حال درج ہے جنہوں نے سندھ میں زندگی بسر کی تھی یا پھر دیگر جگہوں سے سندھ میں ہجرت کر گئے تھے۔ بعد میں ان کے بیٹے سید غلام علی مائل نے ۱۲۱۸ھ میں مجمع البلغاء کے نام سے اس کا تکملہ لکھا اور ان کے بعد محمد ابراہیم خلیل ٹھٹوی نے اس کتاب پر ایک اور تکملہ لکھا تھا جس میں عہدِ تالپوری سے لے کر انگریزوں کے غلبے تک کے شعراء کا تعارف لایا گیا ہے۔
۳۔ تین جلدوں پر مشتمل تحفۃ الکرام۔۔۔ کتاب کی تیسری جلد تاریخِ سندھ اور سندھ کے مشاہیر کے احوال سے متعلق ہے۔
۴۔ زبدۃ المناقب
۵۔ مختار نامہ
۶۔ حکمرانِ خاندانِ کلہوڑا میاں نور محمد عباسی کے احوال پر مشتمل کتاب تاریخِ عباسیہ
۷۔ نصاب البلغاء در علمِ لغت و اصطلاحات
۸۔ معیارِ سالکانِ طریقت۔۔ سندھ کے مشاہیر علماء و صلحاء کے احوال پر
۹۔ انشائے قانع
۱۰۔ شجرۂ اہلِ بیت۔۔۔ ساداتِ سندھ کے انساب و احوال پر مشتمل
۱۱۔ پندرہ سو اشعار پر مشتمل مکلی نامہ
۱۲۔ تین ہزار اشعار پر مشتمل قصۂ کمروپ
۱۳۔ مثنوی قضا و قدر
۱۴۔ مثنوی شمۂ از قدرتِ حق
۱۵۔ ساقی نامہ
۱۶۔ واقعاتِ حضرتِ شاہ
۱۷۔ چہار منزلہ
۱۸۔ اشعارِ متفرقۂ صنائع و تاریخ
۱۹۔ نو آئینِ خیالات
۲۰۔ بوستانِ بہار در تعریفِ کوہِ مکلی
۲۱۔ تزویج نامۂ حسن و عشق
میر قانع فنِ تاریخ گوئی اور صنائع و بدائعِ ادبی میں خاص طور پر مہارت رکھتے تھے ان کے اکثر اشعار ان موارد پر ہیں۔ وہ شاہانِ عصر کے دربار میں اور محافلِ دانش مندان و علماء میں شمعِ فروزاں کے مانند تھے۔ زمانے کے سخنور ہمیشہ ان سے ملاقات کے لیے آتے تھے اور ٹھٹہ میں ان کی قیام گاہ مدتوں تک ادب و سخن سرائی کا مرکز تھی۔ قانع اپنے زمانے کے اکثر علوم و فنون سے آشنا تھے اور گوناگوں موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے۔ ان کی متنوع علوم میں معلومات ان کی کتابوں کے پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ فنِ لغت، الفاظ کی شناسائی، اور مختلف زبانوں جیسے عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور سندھی وغیرہ کی اصطلاحات کے متعلق یہ وسیع اطلاعات رکھتے تھے۔ ان کی کتاب نصاب البلغاء ایک بڑی لغت ہے جس میں اس طرح کے کئی الفاظ اور اداری، علمی، فنی اور پیشہ ورانہ اصطلاحات جمع کی گئی ہیں۔
مختصراً کہیں تو میر قانع جیسے بافضیلت اور ہنرمند رجال زمانے میں کم ہی زمانے میں نظر آتے ہیں۔ یہ عجوبۂ روزگار شخص ۶۴ سال کی عمر میں ۱۲۰۳ھ میں ٹھٹہ میں وفات کر گئے اور ان کی رحلت کے بعد دانش و ادب کی بساط بھی سمٹ گئی۔ ہرچند ان کے بعد ان کے اخلاف میں بھی سید غلام علی مائل، میر صابر علی سائل، میر حسین شاہ ضیاء، اور میر صابر علی صابر جیسے اہلِ علم اشخاص پیدا ہوئے لیکن انجامِ کار دورۂ استعمار اس سرزمین پر فرنگیوں کو لے آیا اور یہاں فارسی ثقافت و ادب کا باغ مرجھا گیا۔
(افغان محقق عبدالحئی حبیبی کے مضمون کا ترجمہ)
محمد وارث
آج سے پانچ صدیوں قبل، ان دنوں جب ہرات دانش و ہنر کا مرکز تھا اور علم پرور بادشاہ اس شہر پر حکمرانی کرتے تھے، ایک نجیب الطرفین سید شیراز سے رخصت ہوئے اور اپنے خاندان کے ہمراہ ہرات آ گئے۔ ان دانشمند مرد کا نام سید اصیل الدین عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن سید جلال الدین محمد یحیی حسینی تھا اور یہ شخص روشن روح اور دردمند دل کے حامل اور علمِ تفسیر و حدیث و انشاء میں نابغہ تھے۔
سید شیرازی سن ۸۵۷ھ میں تیموری بادشاہ سلطان ابوسعید مرزا کے دور میں ہرات تشریف لائے تھے اور خلقِ خدا کی سالوں ہدایت اور فیض رسانی کے بعد ۱۷ ربیع الثانی ۸۸۳ھ کو انتقال کر گئے اور مدرسۂ گوہرشاد کے پہلو میں سپردِ خاک کیے گئے۔ وہ درج الدرد فی سیر خیر البشر، المجتبی فی سیرۃ المصطفی، اور مقصد الاقبال در بیان مزارات ہرات وغیرہم کے مؤلف تھے۔
سید اصیل الدین کے خانوادے سے بہت سارے رجالِ دانش و معرفت ابھرتے رہے کہ جن میں سے ایک قاضی سید شکراللہ بن سید وجیہ الدین شامل ہیں جو ۹۰۶ھ میں ہرات سے قندہار چلے آئے تھے اور شاہ بیگ ارغون نے سن ۹۲۷ھ میں جنہیں بطور قاضی ٹھٹہ بھیجا تھا۔ بعد میں ان نجیب اور دانشمند مرد کی اولاد میں سے کئی بزرگ مؤلفین اور شعراء ٹھٹہ میں سامنے آئے جو کہ اُس وقت علم و ہنر کا مرکز تھا۔ ان کا خاندان ساداتِ شکراللہی کے نام سے جانا جاتا تھا اور یہ خاندان اپنے علم و دانش کی وجہ سے معروف تھا۔
میر علی شیر قانع بھی اسی علم و ذکاوت کے لیے معروف خاندان کے اخلاف میں سے تھے۔ وہ ۱۱۴۰ھ کو ٹھٹہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے بزرگوں سے علم و فضل حاصل کیا اور چونکہ اس وقت ٹھٹہ علم، ثقافت، ادب اور تہذیب کا مرکز تھا، اس لیے میر علی شیر نے اسی گہوارۂ ثقافت میں پرورش پائی اور شعر گوئی اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کیا۔ انہوں نے اپنے لیے 'قانع' کو تخلص کے طور پر منتخب کیا۔
قانع ایک توانا مصنف، دقیق مورخ اور فارسی و سندھی زبان کے اچھے شاعر تھے۔ ان کی منزلت اور ان کے علم کا اندازہ ان کی تالیف کردہ کتب اور ان کی کی تالیفات کے تنوع سے لگایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے قریباً تیس ہزار فارسی اشعار کہے اور بیالیس کتابیں تصنیف کیں، جن میں سے بعض کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ قصائد، غزلیات، ساقی نامہ اور دیگر انواعِ سخن پر مشتمل تیس ہزار اشعار کا فارسی دیوان
۲۔ مقالات الشعراء۔۔۔ ۱۱۶۴ھ کی اس تصنیف میں ایسے تقریباً ہزار فارسی گو شعراء کا حال درج ہے جنہوں نے سندھ میں زندگی بسر کی تھی یا پھر دیگر جگہوں سے سندھ میں ہجرت کر گئے تھے۔ بعد میں ان کے بیٹے سید غلام علی مائل نے ۱۲۱۸ھ میں مجمع البلغاء کے نام سے اس کا تکملہ لکھا اور ان کے بعد محمد ابراہیم خلیل ٹھٹوی نے اس کتاب پر ایک اور تکملہ لکھا تھا جس میں عہدِ تالپوری سے لے کر انگریزوں کے غلبے تک کے شعراء کا تعارف لایا گیا ہے۔
۳۔ تین جلدوں پر مشتمل تحفۃ الکرام۔۔۔ کتاب کی تیسری جلد تاریخِ سندھ اور سندھ کے مشاہیر کے احوال سے متعلق ہے۔
۴۔ زبدۃ المناقب
۵۔ مختار نامہ
۶۔ حکمرانِ خاندانِ کلہوڑا میاں نور محمد عباسی کے احوال پر مشتمل کتاب تاریخِ عباسیہ
۷۔ نصاب البلغاء در علمِ لغت و اصطلاحات
۸۔ معیارِ سالکانِ طریقت۔۔ سندھ کے مشاہیر علماء و صلحاء کے احوال پر
۹۔ انشائے قانع
۱۰۔ شجرۂ اہلِ بیت۔۔۔ ساداتِ سندھ کے انساب و احوال پر مشتمل
۱۱۔ پندرہ سو اشعار پر مشتمل مکلی نامہ
۱۲۔ تین ہزار اشعار پر مشتمل قصۂ کمروپ
۱۳۔ مثنوی قضا و قدر
۱۴۔ مثنوی شمۂ از قدرتِ حق
۱۵۔ ساقی نامہ
۱۶۔ واقعاتِ حضرتِ شاہ
۱۷۔ چہار منزلہ
۱۸۔ اشعارِ متفرقۂ صنائع و تاریخ
۱۹۔ نو آئینِ خیالات
۲۰۔ بوستانِ بہار در تعریفِ کوہِ مکلی
۲۱۔ تزویج نامۂ حسن و عشق
میر قانع فنِ تاریخ گوئی اور صنائع و بدائعِ ادبی میں خاص طور پر مہارت رکھتے تھے ان کے اکثر اشعار ان موارد پر ہیں۔ وہ شاہانِ عصر کے دربار میں اور محافلِ دانش مندان و علماء میں شمعِ فروزاں کے مانند تھے۔ زمانے کے سخنور ہمیشہ ان سے ملاقات کے لیے آتے تھے اور ٹھٹہ میں ان کی قیام گاہ مدتوں تک ادب و سخن سرائی کا مرکز تھی۔ قانع اپنے زمانے کے اکثر علوم و فنون سے آشنا تھے اور گوناگوں موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے۔ ان کی متنوع علوم میں معلومات ان کی کتابوں کے پڑھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ فنِ لغت، الفاظ کی شناسائی، اور مختلف زبانوں جیسے عربی، فارسی، ترکی، ہندی اور سندھی وغیرہ کی اصطلاحات کے متعلق یہ وسیع اطلاعات رکھتے تھے۔ ان کی کتاب نصاب البلغاء ایک بڑی لغت ہے جس میں اس طرح کے کئی الفاظ اور اداری، علمی، فنی اور پیشہ ورانہ اصطلاحات جمع کی گئی ہیں۔
مختصراً کہیں تو میر قانع جیسے بافضیلت اور ہنرمند رجال زمانے میں کم ہی زمانے میں نظر آتے ہیں۔ یہ عجوبۂ روزگار شخص ۶۴ سال کی عمر میں ۱۲۰۳ھ میں ٹھٹہ میں وفات کر گئے اور ان کی رحلت کے بعد دانش و ادب کی بساط بھی سمٹ گئی۔ ہرچند ان کے بعد ان کے اخلاف میں بھی سید غلام علی مائل، میر صابر علی سائل، میر حسین شاہ ضیاء، اور میر صابر علی صابر جیسے اہلِ علم اشخاص پیدا ہوئے لیکن انجامِ کار دورۂ استعمار اس سرزمین پر فرنگیوں کو لے آیا اور یہاں فارسی ثقافت و ادب کا باغ مرجھا گیا۔
(افغان محقق عبدالحئی حبیبی کے مضمون کا ترجمہ)
محمد وارث
آخری تدوین: