میر کی بحرِ ہندی

محمد بلال اعظم

لائبریرین
میر کی ہندی بحر کیا چیز ہے؟
کیا اسے میر تقی میر نے ایجاد کیا تھا؟
یا
کیا یہ بحر متدارک کی ہی ایک شکل ہے؟
برائے مہربانی اس کے بارے میں تفصیلن بتائیں یا کسی پرانے دھاگے کا ہی پتہ بتا دیں۔
محمد وارث
 
بھیا اس چکر میں مت پڑو۔ میر کی ہندی بحر سے بڑے بڑے کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔
در اصل میر کی ہندی بحر کی خاصیت یہ ہے کے یہ پانچ رکنی (ایک مصرعہ) میں بھی استعمال ہوئی ہے۔
پھر ایک ساتھ ایک غزل میں کئی سارے وزن جمع ہوسکتے ہیں۔ لیکن اسکے لئے آپ اتنے ماہر ہوں کے وزن اور تقطیع کرنے میں کوئی غلطی نا کریں ۔
ورنہ آپ خود بھی الجھیں گےاور استاد کو بھی الجھا دینگے۔ :)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وارث بھائی کا جواب کافی کچھ سمجھا دیتا ہے مگر ایک سوال ابھی بھی ہے کہ اسے میر کی ہندی بحر ہی کیوں کہا جاتا ہے؟
 

فاتح

لائبریرین
وارث بھائی کا جواب کافی کچھ سمجھا دیتا ہے مگر ایک سوال ابھی بھی ہے کہ اسے میر کی ہندی بحر ہی کیوں کہا جاتا ہے؟
وارث صاحب کا جواب آپ کو کافی کچھ سمجھا ہی گیا ہو گا۔۔۔ رہا آپ کا سوال کہ اسے میر کی ہندی بحر ہی کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ۔۔۔

عروض اہلِ عرب کا ایجاد کردہ علم ہے جو بعد ازاں اہلِ فارس کے ہاں آیا اور انھوں نے مروجہ عربی بحور میں سے کچھ کو اپنی زبان کی ترکیبوں کے مطابق ترک کر دیا اور کچھ بحور ایجاد کر کے شامل کر دیں اور اردو کے بحیثیت زبان وجود میں آنے کے بعد ہم نے بھی عربی اور فارسی کی تقلید میں عروض کو ہی بطور پیمانۂ شعری اپنا لیا۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہندوستان میں سنسکرت یا قدیم ہندی زبان میں عروض کی آمد سے قبل شاعری ہی نہیں ہوتی تھی یا ہوتی تھی تو بغیر کسی وزن یا پیمانے کے ہوتی تھی۔

سنسکرت یا قدیم ہندی زبان میں عروض کی آمد سے قبل بھی شاعری ہوتی تھی اور اوزان کے مطابق ہی ہوتی تھی لیکن ان کے اوزان کا علم پنگل اور چھند شاستر کہلاتا تھا اور چھند کے اپنے مروجہ اصول تھے جن کے مطابق اشعار "آہنگ" میں کہے جاتے تھے اور ان آہنگوں کے بھی "بحور" کی طرح اپنے اپنے الگ نام تھے لیکن چھند کے آہنگ عروض کی بحور سے بے حد مختلف تھے۔ بلکہ سرِ راہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آج بھی ہند و پاک کے کچھ علما (جن میں "اردو کا عروض" کے مصنف حبیب اللہ خاں غضنفر بھی شامل ہیں) اس خیال کے حامی ہیں کہ چونکہ بے شمار اردو الفاظ اور اکثر جملوں کی ساخت اور ادائیگی کے انداز پر سنسکرت یا قدیم ہندی زبان کا اثر ہے لہٰذا اشعار کے اوزان کے لیے بھی ایک بیرونی علم یعنی عروض کی بجائےچھند زیادہ موزوں اور قریب تر ہے۔

خسرو کی شاعری کے اوزان میں بھی چھند کے آہنگ نظر آتے ہیں جب کہ ان کے بعد آنے والے اساتذہ یعنی قائم، حاتم، میر وغیرہ کے دور تک پہنچتے پہنچتے اردو کی شکل کافی نکھر چکی تھی اور اس میں نہ صرف عربی و فارسی کے بے شمار الفاظ شامل ہو چکے تھے بلکہ شعر کے اوزان کے پیمانہ کے طور پر عروض کے اوزان بھی اپنائے جا چکے تھے۔ لیکن بہرحال قدیم چھند کا اثر مکمل طور پر زائل نہ ہوا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ بحر متقارب اپنی ترکیب و تشکیل کے اعتبار سے سنسکرت چھند کے آہنگوں کے قریب ہونے کے باوصف ہندوستانی اردو شعرا میں ایک مقبول بحر تھی۔

یہ بحر میر کی ایجاد نہیں بلکہ میر کی ہندی بحر دراصل بحر متقارب کی سولہ رکنی شکل ہے جو کہ دو ہندی چھند (نیل سروپ اور ساروتی) کے ملاپ سے بننے والے آہنگ سے بے حد مشابہ ہے اور اس بحر میں شاعر کے پاس آزادی ہوتی ہے کہ وہ "تقریباً" جہاں چاہے وہاں سبب خفیف استعمال کرے اور جہاں چاہے وہاں سبب ثقیل لیکن ارکان کی تعداد درست رہنی چاہیے۔

اسے کچھ لوگ میر سے اس لیے منسوب کرتے ہیں کہ میر کے دواوین میں تقریباً ڈیڑھ دو سو غزلیات اس ایک بحر میں ہیں یعنی میر نے اسے اس قدر برتا کہ وہ نہ صرف میر کے مزاج کا حصہ بن گئی بلکہ میر سے ہی منسوب ہو گئی۔ گو کہ قدما میں جرات نے بھی اس بحر کو برتا ہے لیکن اس قدر تواتر سے نہیں اور متقدمین کے کلام میں شاید یہ بحر جگہ نہ پاتی اگر میر نے اسے اتنا استعمال نہ کیا ہوتا۔ یوں بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرؔ اس بحر کو رواج دینےو الے استاد شاعر ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
وارث صاحب کا جواب آپ کو کافی کچھ سمجھا ہی گیا ہو گا۔۔۔ رہا آپ کا سوال کہ اسے میر کی ہندی بحر ہی کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ۔۔۔
عروض اہلِ عرب کا ایجاد کردہ علم ہے جو بعد ازاں اہلِ فارس کے ہاں آیا اور انھوں نے مروجہ عربی بحور میں سے کچھ کو اپنی زبان کی ترکیبوں کے مطابق ترک کر دیا اور کچھ بحور ایجاد کر کے شامل کر دیں اور اردو کے بحیثیت زبان وجود میں آنے کے بعد ہم نے بھی عربی اور فارسی کی تقلید میں عروض کو ہی بطور پیمانۂ شعری اپنا لیا۔
اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہندوستان میں سنسکرت یا قدیم ہندی زبان میں عروض کی آمد سے قبل شاعری ہی نہیں ہوتی تھی یا ہوتی تھی تو بغیر کسی وزن یا پیمانے کے ہوتی تھی۔
سنسکرت یا قدیم ہندی زبان میں عروض کی آمد سے قبل بھی شاعری ہوتی تھی اور اوزان کے مطابق ہی ہوتی تھی لیکن ان کے اوزان کا علم پنگل اور چھند شاستر کہلاتا تھا اور چھند کے اپنے مروجہ اصول تھے جن کے مطابق اشعار "آہنگ" میں کہے جاتے تھے اور ان آہنگوں کے بھی "بحور" کی طرح اپنے اپنے الگ نام تھے لیکن چھند کے آہنگ عروض کی بحور سے بے حد مختلف تھے۔ بلکہ سرِ راہ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ آج بھی ہند و پاک کے کچھ علما (جن میں "اردو کا عروض" کے مصنف حبیب اللہ خاں غضنفر بھی شامل ہیں) اس خیال کے حامی ہیں کہ چونکہ بے شمار اردو الفاظ اور اکثر جملوں کی ساخت اور ادائیگی کے انداز پر سنسکرت یا قدیم ہندی زبان کا اثر ہے لہٰذا اشعار کے اوزان کے لیے بھی ایک بیرونی علم یعنی عروض کی بجائےچھند زیادہ موزوں اور قریب تر ہے۔

خسرو کی شاعری کے اوزان میں بھی چھند کے آہنگ نظر آتے ہیں جب کہ ان کے بعد آنے والے اساتذہ یعنی قائم، حاتم، میر میں میر، قائم کے دور تک پہنچتے پہنچتے اردو کی شکل کافی نکھر چکی تھی اور اس میں نہ صرف عربی و فارسی کے بے شمار الفاظ شامل ہو چکے تھے بلکہ شعر کے اوزان کے پیمانہ کے طور پر عروض کے اوزان بھی اپنائے جا چکے تھے۔ لیکن بہرحال قدیم چھند کا اثر مکمل طور پر زائل نہ ہوا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ بحر متقارب اپنی ترکیب و تشکیل کے اعتبار سے سنسکرت چھند کے آہنگوں کے قریب ہونے کے باوصف ہندوستانی اردو شعرا میں ایک مقبول بحر تھی۔

یہ بحر میر کی ایجاد نہیں بلکہ میر کی ہندی بحر دراصل بحر متقارب کی سولہ رکنی شکل ہے جو کہ دو ہندی چھند (نیل سروپ اور ساروتی) کے ملاپ سے بننے والے آہنگ سے بے حد مشابہ ہے اور اس بحر میں شاعر کے پاس آزادی ہوتی ہے کہ وہ "تقریباً" جہاں چاہے وہاں سبب خفیف استعمال کرے اور جہاں چاہے وہاں سبب ثقیل لیکن ارکان کی تعداد درست رہنی چاہیے۔

اسے کچھ لوگ میر سے اس لیے منسوب کرتے ہیں کہ میر کے دواوین میں تقریباً ڈیڑھ دو سو غزلیات اس ایک بحر میں ہیں یعنی میر نے اسے اس قدر برتا کہ وہ نہ صرف میر کے مزاج کا حصہ بن گئی بلکہ میر سے ہی منسوب ہو گئی۔ گو کہ قدما میں جرات نے بھی اس بحر کو برتا ہے لیکن اس قدر تواتر سے نہیں اور متقدمین کے کلام میں شاید یہ بحر جگہ نہ پاتی اگر میر نے اسے اتنا استعمال نہ کیا ہوتا۔ یوں بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ میرؔ اس بحر کو رواج دینےو الے استاد شاعر ہیں۔


واہ زبردست فاتح بھائی۔
بہت بہت شکریہ اس معلوماتی جواب کا۔
 
Top