حسان خان
لائبریرین
کُنتُ کنزاً مخفیاً کا راز جو افشا ہوا
سب سے پہلے نورِ ختم المرسلیں پیدا ہوا
حضرتِ آدم کی پیشانی میں دکھلائی چمک
پھر جنابِ شیث کی آنکھوں کا وہ تارا ہوا
پھر جنابِ نوح کو بخشا نجی اللہ خطاب
حضرتِ ادریس کا بھی مرتبہ بالا ہوا
خلعتِ خِلّت دیا حضرت خلیل اللہ کو
عالمِ اسباب میں جو بت شکن پیدا ہوا
جاں نثاری کا دیا منصب ذبیح اللہ کو
جس کی خاطر دنبۂ خلدِ بریں فدیہ ہوا
مستفید اس سے ہوئے اسحٰق بھی، یعقوب بھی
حضرتِ یوسف کے روئے حسن کا غازہ ہوا
حضرتِ یونس نے پائی بطنِ ماہی سے نجات
خضر کو بھی آبداری کا عطا عہدہ ہوا
صالح و ایوب، یوشع، الیسع، یحییٰ، شعیب
جس میں یہ چمکا خدا کا خاص وہ بندہ ہوا
کیا کہوں نیرنگیاں اس نورِ عالمتاب کی
حضرتِ موسیٰ سے پوچھے کوئی کیوں سکتہ ہوا
حضرتِ عیسیٰ کو دی اس نے حیاتِ جاوداں
قم باذن اللہ ایک فقرہ سا تھا چلتا ہوا
تشنہ کامانِ ہدایت کی یہ پھر نکلی سبیل
نور کا دریا گیا فاران تک بہتا ہوا
پھر بنی عدنان میں دریا سمٹ کر آ گیا
قطرے سے دریا ہوا، دریا سے وہ قطرہ ہوا
باعثِ رخشانیِ تاجِ سرِ اہلِ قریش
آبرہ بخشِ جہاں وہ گوہرِ یکتا ہوا
پھر ہوا وہ اخترِ تابندۂ عبدِ مناف
پھر وہ عبد المطلب کی آنکھ کا تارا ہوا
پھر جبینِ پاکِ عبداللہ میں پہنچا وہ نور
آمنہ کے بطن میں پھر وہ شرف افزا ہوا
نو مہینے تک رہا برجِ حمل میں آفتاب
پھر وہ اپنا جانِ عالم انجمن آرا ہوا
مرحبا صد مرحبا صل علیٰ صل علیٰ
مژدہ باد اے دل کہ محبوبِ خدا پیدا ہوا
مرحبا نورِ جنابِ مصطفیٰ پیدا ہوا
حبذا آئینۂ نورِ خدا پیدا ہوا
بے سہاروں کا سہارا، بیکسوں کا دردمند
بے وسیلوں کا وسیلہ، برملا پیدا ہوا
بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ، بے پناہوں کی پناہ
دردمندانِ بلاکش کی دوا پیدا ہوا
نیرِ برجِ نبوت، شمعِ بزمِ مکرمت
گوہرِ نایاب، لعلِ بے بہا پیدا ہوا
جشنِ میلادِ مبارک کی مچی دنیا میں دھوم
آستاں پر خانۂ کعبہ جبیں فرسا ہوا
ہل گئے فارس میں کسریٰ کے محل کے کنگرے
لات کا عزیٰ کا بیت اللہ سے منہ کالا ہوا
ہم سے کیوں کر ہو سکے کیفی بیاں میلاد کا
مختصر یہ ہے خدا کا مدعا پورا ہوا
(سید رضی الدین حسن کیفی)
کُنتُ کنزاً مخفیاً = "میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا ، میں نے چاہا کہ خود کو ظاہر کروں ،پس اس عالم کو پیدا کیا۔" (حدیثِ قدسی)