ریختہ صفحہ 86
کوئی رات کی بچی بچائی باسی کوسی روٹی بغل میں ماری۔ دو چار پان کے ٹکرے مٹی کا حقہ ساتھ لیا اور وہیں شام کر دی۔ اگر کوئی مچھلی مل گئی توفبہا محلہ بھر میں عید ہوگئی۔ کچھ بچی کچھ بانٹیں کچھ کھائیں کچھ رکھی نہ ملی تو چپکے سے آ کچھ موجود ہوا تو کھا کر ورنہ فاقے سے چپکے پڑ رہے
شہزادوں کا یہ خاندان غدر کے بعد کچھ شادی بیاہ کے اور کچھ کام کے سلسلہ میں منتشر ہوکر دوسرے شہروں میں پہنچ گیا۔ یہ جس وقت کا ذکر ہے اس وقت دلی شہزادوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی مگرافلاس نے ایسی بری گت بنا دی تھی کہ روٹی تھی تو کپڑا نہ تھا اور کپڑا تھا تو روٹی نہ تھی۔
دلی میں جو میلے اس سے پہلے ہوئے وہ میں نے نہیں دیکھے مگر اس کے بعد میلے بھی دیکھے دربار بھی دیکھے جلسے اور محفلیں بھی دیکھیں مگر جو صورتیں میلے میں نظر آ گئیں وہ تو پھر کیا نظر آتیں ، ان جیسی بھی پھر دیکھنے میں نہ آئیں۔ ہاں پھول والی بیگم جب تک زندہ رہیں ان کی لہکار اور ان کے پھولوں کی مہکار میں وہ سماں یاد دلاتی رہی۔
برجیس دلہن جو اس میلے کی جان اور گوہر آرا بیگم جو اس برات کی دلہن تھیں بہت روز تک زندہ رہیں۔ برجیس دولہن کلاں محل کے پاس رہتی تھیں مگر گوہر آرا بیگم اپنی نندکے ساتھ سلطان جی چلی گئی تھیں۔ کبھی کبھی پھول والی بیگم کے ہاں ان شہزادیوں کا جمگھٹا ہو جاتا تھا۔ عید اور بکرا عید پر سب کی سب پھول والی بیگم کے ہاں جمع ہوتی تھیں اور رنگ رلیاں منانا لیتی تھیں قطب میں بھی اندھیری باغ میں ایک برسات میں نے اس میلے کے چار یا پانچ سال بعد شہزادیوں کی دیکھی ہے۔ جھولے پڑے ہوتے تھے اور آم جامنوں کی جہلیاں رکھی ہوئی تھیں۔
ریختہ صفحہ 87
کڑہائیاں چڑھی ہوئی تھیں اور پینگیں بڑھ رہی تھیں۔ پھول والی بیگم جس جھولے میں بیٹھی ہیں تو گوہر آرا بیگم ان کے ساتھ پاؤں جوڑے بیٹھی تھیں۔ سلطان بیگم اور برجیس دلہن جن کے ساتھ اور بہت سی بیبیاں تھیں جھولا جھول رہی تھیں۔ پھول والی بیگم نے جس وقت یہ ملہار شروع کیا ہے
" جھلوا جھلاتے ناگن ڈس گئی"
تو باغ گونج اٹھا تھا۔ شام تک چہل پہل رہی۔ گوہر آرا بیگم کو میں نے اس کے بعد نہیں دیکھا۔ سنا ضرور کہ زندہ ہیں۔ اسی طرح برجیس دلہن بھی پر نظر نہ آئیں۔ ہاں پھول والی بیگم کی صدا روز رات کو بلند ہوتی تھی۔ وہ کبھی کبھی جب جی چاہتا تھا تو خود ہی بادشاہ کی کوئی غزل الاپتی تھیں۔ مگر جہاں انہوں نے غزل شروع کی اور دکان کے آگے بھیڑ لگی۔ رات کے سناٹے میں شاید ہی کوئی ایسا سنگدل ہوتا ہوگا جس کے کلیجہ میں بیگم کی آواز نہ گھستی ہو۔
افسوس یہ ہے کہ بیگم کے سوا جس کو سرکار سے کچھ نہ ملتا تھا باقی اور سب شہزادیوں کی جن کو ماہانہ وظیفہ مل رہا تھا حالت نہایت ر دی تھی۔ ٹھیک یاد نہیں مگر گوہر آرا بیگم کے ہاں سب مل جل کر پچاس روپیہ کم کا وظیفہ نہ ہوگا مگر ان کے نندوئی اور دیور بھنگ، چرس، چنڈو، کبوتر، مرغ، گلدم، ہڑنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ یقینی طور پر تو کہنا مشکل ہے مگر گمان غالب ہے کہ مہینہ میں ایک آدھ فاقہ ضرور تو آتا ہوگا۔ ان کی بھتیجی قمر آرا جس کو انہوں نے بیٹی بنا لیا تھا پہلی بیوی کے مر جانے کے بعد سلطان دولہا سے بیاہی گئی۔ یہ سب ہی گنوں پورے تھے۔ لمبی سفید داڑھی تھی مگر چوک پر روزانہ کبوتر ہاتھ میں لیے موجود ہوتے تھے۔ ٹوپی تو چکٹ ہوتی تھی، مگر ہوتی وہی شاہانہ تھی۔ میں نے ان کو چوک
ریختہ صفحہ 88
پر لیتھڑے پہنے اور ننگے پاؤں پھرتے دیکھا ہے۔ گوہر آرا بیگم اور سلطان دولہا کے بعد اس لڑکی قمر کی حالت بہت ابتر ہو گئی۔ بچہ کوئی نہ تھا اور اس قابل بھی نہ رہی تھی کہ نکاح کر لیتی۔ چالیس پچاس برس کی عمر ہو گی مگر افلاس نے قبل از وقت بڑھاپے کے ڈیرے ڈال دیے تھے۔ وہ پھرتی پھراتی میرے ماموں کے ہاں ماما گیری کے واسطے آئی اور ایک روپیہ مہینہ اور روٹی پر نوکر ہوئی۔ اس کی عمر غدر میں سات آٹھ برس کی ہوگی۔ مصائب کے تمام پہاڑ اس کے سر سے گزر چکے تھے۔ خاندان تیموریہ کی تباہی و بربادی میں وہ برابر کی شریک تھی اور اس کی زندگی بتا رہی تھی کہ کس طرح بیجوں پر سونے والیاں خاک ہیں۔
رات کے وقت جب بوا قمر جن کو بچے خالہ خالہ کہتے تھے کام کاج سے فارغ ہو جاتی تو ان کے پاس جا بیٹھتے اور وہ غدر کی داستانیں اس طرح سناتیں کہ بعض دفعہ بڑے بوڑھے بھی شوق سے سنتے۔ انہوں نے اپنی آنکھ سے ایسے ایسے خاندانوں کی بربادی دیکھی تھی کہ سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ اور میری رائے میں تو وہ خود بھی انقلاب کی پوری تصویر تھیں۔ ان کا پھٹا ہوا برقع اور ٹوٹی ہوئی جوتی اس وقت تو نہیں مگر آج عالم تخیل میں میرے واسطے درس عبرت ہے۔ اب تو نہ وہ لوگ رہے نہ وہ باتیں رہیں۔ ہر جگہ امی جمی دکھائی دیتی ہے۔ مگر جن جن پر مصیبتیں پڑیں وہ نہ رہے مگر ان کی دل ہلا دینے والی داستانیں اور ان کی ہوش ربا مصیبتیں آج بھی لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں اور بہاتے رہیں گے۔
تمت