حسینی
محفلین
باسمہ تعالی
میٹا فیزیک یا ما بعد الطبیعہ کہنے کی اصل وجہ
میٹا فیزیک یا ما بعد الطبیعہ کہنے کی اصل وجہ
آج شہید مرتضی مطہری کی کتاب "سیر فلسفہ در اسلام" اور "کلیات فلسفہ" کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک جالب نکتے کی طرف متوجہ ہوا۔ خواہش ہوئی کی آپ لوگوں کو بھی اس نکتے میں شریک کروں۔ فلسفہ سے تعلق رکھنے والوں کو یہ نکتہ یقینا بہت پسند آئے گا۔
ارسطو وہ شخص تھا جس نے بعض ایسے مسائل کو کشف کیا جو کسی بھی اور علم میں داخل نہیں تھے۔ لیکن وہ اس نتیجہ تک شاید پہنچ گیا تھا کہ ان تمام مسائل کے درمیان مشترک چیز یا عنوان "وجود" ہے۔ لیکن ارسطو نے ان مسائل یا اس علم کو کوئی خاص نام نہیں دیا تھا۔ ارسطو کے آثار کو بعد میں جب ایک جگہ جمع کیا گیا تو یہ مسائل "'طبیعیات" کے حصے کے بعد قرار پائے اور چونکہ ان مسائل کو خاص نام نہ دیا گیا تھا اس لیے میٹا فیزیک یا ما بعد الطبیعات یعنی بعد از فیزیک کا نام دیا گیا، جس کا عربی میں ترجمہ "ما بعد الطبیعہ " بنتا ہے۔
آہستہ آہستہ لوگ بھول گئے کہ اس علم کو یہ نام ارسطو کی کتاب میں "طبیعیات "کے بعد قرار پانے کی وجہ سے دیا گیا ہے اس لیے یہ گمان کیا گیا کہ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ اس علم یعنی فلسفہ کے بہت سے مسائل طبیعت سے خارج ہیں۔ جیسے واجب الوجود کی بحث یا عقول کی بحث۔
لہذا ابن سینا جیسے فلسفی کے لیے بھی یہ معمہ بن گیا کہ اگر ایسا ہے تو اس علم کو "ما قبل الطبیعہ" نام دینا چاہیے تھا، چونکہ خدا وغیرہ جو کہ اس علم کے موضوع ہیں طبیعت سے پہلے وجود رکھتے ہیں اور ان کا وجود ہر لحاظ سے طبیعت پر مقدم ہے۔
بعد میں کچھ لوگوں کہ لیے یہی اشتباہ ایک اور بڑے اشتباہ کا باعث بنا اور "مابعد الطبیعہ" کو "ما وراء الطبیعہ" کے مساوی سمجھنے لگے اور گمان کرنے لگے کہ اس علم کا موضوع وہ چیزیں ہیں جو طبیعت سے خارج ہیں۔ اور میٹا فیزیک کی تعریف یہ کرنے لگے کہ " میٹا فیزیک وہ علم ہے جو صرف خدا اور غیر مادی چیزوں کے بارے میں بحث کرتا ہے" جو کہ سراسر غلط فہمی ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ما بعد الطبیعہ یا فلسفہ کا موضوع وجود بما ھو وجود ہے۔
استفادہ از "مجموعہ آثار استاد شہید مطہری"
جلد ۵، ص ۱۳۴، ۱۳۵