انسان نیک نیتی سے کام کرتا رہے تو مخالفانہ تحریکوں سے کچھ نہیں ہوتا۔حکومت کو کوئی کام کرنے دے تب نا ۔۔۔
انسان نیک نیتی سے کام کرتا رہے تو مخالفانہ تحریکوں سے کچھ نہیں ہوتا۔حکومت کو کوئی کام کرنے دے تب نا ۔۔۔
"
تہذیبی مظاہر دو طرح کے ہوتے ہیں کہ کچھ تو تہذیب کے اساسی نظریات سے متعلق ہیں اور کچھ تمدن سے متعلق عام طور پر تمدن کے مظاہر کو تہذیب سمجھا جاتا ہے میری نظر میں عقیدہ کا اظہارکرتے مظاہر ہی تہذیب کا نمائندہ ہیں
تہذیب کی بنیاد اس کے چند اساسی نظریات ہوا کرتے ہیں۔ تہذیب اپنے تصور کائنات (World View)اور تصور خالق اور تصور انسان سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ تصورات اور ان پر مشتمل تہذیب ،ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ عقیدہ جب فکرو عمل میں ڈھلتا ہے تو چند مظاہر سامنے آتے ہیں۔ یہی مظاہر ”تہذیب” کہلا تے ہیں۔ عقائد کی درستی یا خرابی کا اندازہ تہذیبی مظاہر سے ہوتا ہے۔ اس لئے تہذیب ایک اعتبار سے عقائد کا اظہارہے اور عقائد تہذیب کا باطن ہیں ۔ عقائد اور تہذیب میں بیج اور درخت کا تعلق ہے ۔ تہذیب اپنے بنیادی عقائد اور ان کے مظاہر پر مشتمل ہوتی ہے۔
۔"
جب قومیں اپنی بنیادی اساس سے دور ہٹنے لگتی ہیں تو ایسے ہی خوف اور احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔ جب تک مسلمان طاقتور اور غالب تھے تو دوسری اقوام ہمارے کلچر کو اپنانا فخر محسوس کرتی تھیں۔ آج ہم کمزور ہیں اور ہماری نئی نسلیں طاقتور قوموں کے کلچر کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو ہمیں فکر اور پریشانی لاحق ہے۔ہم کس بحث میں پڑے ہیں بھلا اور کسی دھرم کو ثقافت کے ساتھ کیوں خلط ملط کر رہے ہیں ؟
بات سیدھی سی ہے کہ جب آپ ایک مشترکہ ثقافت میں مختلف اقوام کے ساتھ دس بیس نہیں 1300 برس رہتے رہے تو آپ کے مزہب کو خطرہ لاحق ہوا نہ وجود کو اور نہ ہی ثقافت کو بلکہ ہوا یہ کہ آپ کی ظقافت کا رنگ یہاں کی ہر قوم نے اپنا لیا ۔ سلے ہوئے کپڑے پہننے سے لے کر سر پر دوپٹہ رکھنا اس ثقافت کو آپ نے دیا اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے آپ ہی کی طرح واویلا کر کے اس ثقافت کو ماننے سے انکار کیا نہ اسے مذہب سے جوڑ کر دیکھا ۔
اب جبکہ آپ آزاد ، خود مختار اور اسلامی مملکت کے باسی ہیں تو آپ کو یہ ثقافتی خطرے اس طرح سے محسوس کیوں ہو رہے ہیں ؟ ۔ کہیں ایساتو نہیں کہ اب ہمارے پاس ہی ایسا کچھ نہیں رہا جس کو دنیا قبول کرے اور ہم اپنے اس احساس کمتری کو چھپانے کے لئے کبھی مذہب کی پناہ ڈھونڈتے ہیں تو کبھی ثقافت و مذہب کا ملغوبہ بنانا شروع کر دیتے ہیں ۔
بخدا ، ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہوئے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ ایسا ہے کہ نہیں ؟ ۔
جب قومیں اپنی بنیادی اساس سے دور ہٹنے لگتی ہیں تو ایسے ہی خوف اور احساس کمتری کا شکار ہوتی ہیں۔ جب تک مسلمان طاقتور اور غالب تھے تو دوسری اقوام ہمارے کلچر کو اپنانا فخر محسوس کرتی تھیں۔ آج ہم کمزور ہیں اور ہماری نئی نسلیں طاقتور قوموں کے کلچر کی طرف جھکاؤ کا مظاہرہ کر رہی ہیں تو ہمیں فکر اور پریشانی لاحق ہے۔
اگر ہم اپنی بنیادی اساس یعنی اسلامی تعلیمات سے غافل نا ہوں تو ان خطرات سے ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی انشآاللہ
مذہب کے ثقافت پر اثرات کا ذکر آپ نے بھی پہلے یوں کیاآپ ثقافت اور مذہب کے باہمی تعلق اور ان کے درمیان مشترک عوامل پر کچھ کہیں گے ؟
جسم کو مناسب انداز سے ڈھک کر رکھنے کی لازمی ضرورت مذہب نے ہی ہمیں دی اسے ایک مثال کہا جاسکتاہے مذہب اور ثقافت کے درمیان ایک تعلق کی۔۔ سلے ہوئے کپڑے پہننے سے لے کر سر پر دوپٹہ رکھنا اس ثقافت کو آپ نے دیا ۔