فرقان احمد
محفلین
جنہیں انصافی طبقہ مل کر جتھے کی صورت میں گھیر لے، وہ بوکھلاہٹ میں ایسے بیانات داغ سکتا ہے۔ آپ پریشان مت ہوئیے۔ دشنام طرازی کا سلسلہ دراز کر دیجیے۔ بجز اس کے، سیاست میں بچا ہی کیا ہے؟ انصافی انقلاب یا کم از کم جوہری تبدیلی لانے کے دعوے دار تھے۔ ان کی گالم گلوچ بتلائے دے رہی تھی کہ یہ بھی سطحی پن میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اب تو یہ تجربہ کر کے دیکھ لیا گیا۔ جیسا کہ خان صاحب کی اپنی زبان سے پھول جھڑتے ہیں، بعینہ ان کے ورکرز بھی ایسے ہی ہیں۔ لیڈر شپ کا فقدان ہے اور بدقسمتی سے خان صاحب نا اہل حکمرانوں کی فہرست میں ایک بھرپور قسم کا اضافہ ثابت ہوئے ہیں۔ اگلوں کا حال بھی ہم دیکھ چکے۔ ہم دعا گو ہیں کہ کوئی ایسا رہنما میسر آ جائے جس میں صحیح معنوں میں تدبر ہو اور وہ قائدانہ صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو۔ کیا ہم اس قابل ہیں کہ ایسا کوئی حکمران ہمیں نصیب ہو! شاید ایسا ہونا بہت مشکل ہے۔بغض عمران کا تازہ شکار یوتھیوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ اب اوریا مقبول جان کی خیر نہیں۔ آزادی صحافت اور اظہار کے نام پر جو پاکستان میں ہو رہا ہے اللہ اس کے شر سے سب کو محفوظ رکھے۔ آمین