خواجہ طلحہ
محفلین
مسئلہ:
بزرگوں سے سنا ہے کہ "برا ئی کے تذکرہ سے بھی برائی پھیلتی ہے ، اس لیے برإئی کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہیے".
انسان میں اچھائی اوربرائی کی طرف رغبت فطری ہے. نئی نئی اچھائیوں اور برائیوں سے متعارف ہونے کے لیے آج کا میڈیا ایک تیز اور آسان ذریعہ ہے.اگرچہ بزرگوں کا یہ قول مجھے یہاں کھل کر میڈیا کے پیدا کردہ بگاڑ کو بیان نہیں کرنے دے گا۔لیکن عاشق اور دیوانے کو کب پتہ ہوتا ہے کہ کتا ناپاک ہوتاہے۔وہ تو اس لیے کتے کے پاؤں چومتا ہے کہ یہ کتا لیلہ کی گلی سے گزرتاہے۔
تو پیارے دوستو! جب دل تڑپتا ہے، اپنی روایات کے توٹنے پرتو۔۔
توالفاظ بے اختیا ر ہوجاتے ہیں۔
میرے نزدیک سب سے پہلی چیز جو کہ کسی قوم کی پہچان ہے وہ لباس ہے۔ پھر زبان ۔او ر پھر دوسری چیزیں۔
میڈیا کی تیز ترقی کی بدولت دنیا کے گلوبل ولیج بن جانے کے بعد، صرف دو سوال ہیں میرے خود سے
کیا میں اپنی مادری زبان پر قائم ہوں؟
اور میں اس وقت کس لباس میں ہوں؟
ہماری یونیورسٹیوں ، ہمارے بنکوں، ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کونسا لباس ہے۔؟ کونسی زبان بولنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گلی محلوں میں بچے کس کی نقل کرتے نظر آتےہیں؟
حل:
عرصہ ہوا ایک تڑپنے والے نے کہا تھا۔
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں۔
اس مصرعے میں خوشامد کی جگہ '،اپنی زبان اور اپنا لباس اپنانے والوں کے لیے' حوصلہ افزائی رکھ کر دیکھئے آپ کو اس بگاڑ کو سنوارنے کی راہیں مل جا ئیں گی۔
بزرگوں سے سنا ہے کہ "برا ئی کے تذکرہ سے بھی برائی پھیلتی ہے ، اس لیے برإئی کا تذکرہ بھی نہیں کرنا چاہیے".
انسان میں اچھائی اوربرائی کی طرف رغبت فطری ہے. نئی نئی اچھائیوں اور برائیوں سے متعارف ہونے کے لیے آج کا میڈیا ایک تیز اور آسان ذریعہ ہے.اگرچہ بزرگوں کا یہ قول مجھے یہاں کھل کر میڈیا کے پیدا کردہ بگاڑ کو بیان نہیں کرنے دے گا۔لیکن عاشق اور دیوانے کو کب پتہ ہوتا ہے کہ کتا ناپاک ہوتاہے۔وہ تو اس لیے کتے کے پاؤں چومتا ہے کہ یہ کتا لیلہ کی گلی سے گزرتاہے۔
تو پیارے دوستو! جب دل تڑپتا ہے، اپنی روایات کے توٹنے پرتو۔۔
توالفاظ بے اختیا ر ہوجاتے ہیں۔
میرے نزدیک سب سے پہلی چیز جو کہ کسی قوم کی پہچان ہے وہ لباس ہے۔ پھر زبان ۔او ر پھر دوسری چیزیں۔
میڈیا کی تیز ترقی کی بدولت دنیا کے گلوبل ولیج بن جانے کے بعد، صرف دو سوال ہیں میرے خود سے
کیا میں اپنی مادری زبان پر قائم ہوں؟
اور میں اس وقت کس لباس میں ہوں؟
ہماری یونیورسٹیوں ، ہمارے بنکوں، ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کونسا لباس ہے۔؟ کونسی زبان بولنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گلی محلوں میں بچے کس کی نقل کرتے نظر آتےہیں؟
حل:
عرصہ ہوا ایک تڑپنے والے نے کہا تھا۔
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں۔
اس مصرعے میں خوشامد کی جگہ '،اپنی زبان اور اپنا لباس اپنانے والوں کے لیے' حوصلہ افزائی رکھ کر دیکھئے آپ کو اس بگاڑ کو سنوارنے کی راہیں مل جا ئیں گی۔