1۔
منفی اثر :
اخبارات کا شمار میڈیا کے سب سے قدیم ذرائع میں اگر ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات بھی اتنے ہی پرانے جانے جاتے ہیں۔ دورِ حاضر کے اخبارات نے تو مادہ پرستی کی دوڑ میں تہذیب ، شائستگی ، رواداری ، اخلاقیات اور مذہبی نظریات کو یکسر پسِ پشت ڈال دیا ہے جس کا واضح نتیجہ نوجوانوں کی بےراہ روی اور گمراہی کے راستوں کی جانب بلا روک ٹوک سفر کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔
اخبارات کی بےبنیاد اور جھوٹی خبروں پر اشتعال ، سنسنی خیز اور جذباتی سیاست پر مذہبی طبقاتی ٹکراؤ ، قتل و خون و غارت گری کی آزادانہ عکاسی پر انتقامی رویوں کا عروج ، فحش فکر و نظر کی ترویج پر اخلاقیات کا زوال ۔۔۔۔ یہ چند مثالیں ہیں۔
ہماری ذمہ داری :
ہر دو طبقے پر ذمہ داری کا بوجھ بانٹا جانا چاہئے۔ ایک وہ گروہ جو خود صحافت سے وابستہ ہے ، اس کو خود احتسابی کے طور پر اتنا ضرور سوچ لینا چاہئے کہ آگ اگر پڑوس میں پھیلتی ہے تو کسی دن اپنا گھر بھی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
دوسرا طبقہ اصلاح پسندوں کا ہے جس میں والدین ، سرپرست ، اساتذہ ، علماء و دانشوران کو شمار کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے تجربے کے لحاظ سے وہ موثر حکمت عملی اپنا سکتے ہیں۔ صرف اپنے گھر اخبارات پر پابندی لگا کر مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ نوجوان طبقہ کے ساتھ مثبت و منفی اثرات پر کھل کر گفتگو وقت کا تقاضا ہے۔
2۔
منفی اثر :
ڈائجسٹ اور رسائل ہر چند کہ راست میڈیا کے زمرے میں نہیں آتے مگر بہرحال یہ بھی کمیونکیشن کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں۔ تازہ ترین فیشن کے پیچھے دوڑ ، فلمی ہستیوں کی تقلید ، جھوٹی سچی کہانیوں کے نشے میں زندگی کے حقائق و فرائض سے فرار ۔۔۔ یہ منفی اثرات ہمارے معاشرے کے اکثر و بیشتر طبقات میں محسوس کئے گئے ہیں۔
ہماری ذمہ داری
اس ضمن میں والدین اور سرپرستوں کو اپنی ذمہ داری کا زیادہ احساس کرنا چاہئے۔ انہیں اس تاثر کو عملی اور قولی طور سے ترویج دینا چاہئے کہ گھر میں صرف وہی رسائل اور ڈائجسٹ آئیں جنہیں ایک دوسرے کے سامنے پڑھتے ہوئے کسی کو کسی سے شرم محسوس نہ ہو۔ یہ کام مشکل تو ہے مگر ہر کام ابتدا میں مشکل ہی لگتا ہے مگر جب عملی طور پر خود بھی اس اصول کا پابند ہوا جائے تو آہستہ آہستہ دیگر سب بھی عادی ہو جاتے ہیں۔
3۔
منفی اثر :
ریڈیو آج کل دوبارہ عروج پر آنے کی کوششوں میں لگا ہے۔ ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت تقریباً ہر ملک میں دکھائی دے جاتی ہے۔ نوجوانوں کے قیمتی وقت کو "وقت گزاری" کے نام پر جو یہ ریڈیو چینلز تباہ کر رہے ہیں ، اس کے منفی اثرات فی الحال زیادہ محسوس نہیں کئے جاتے۔
ہماری ذمہ داری
یہاں بھی زیادہ تر ذمہ داری والدین اور سرپرستوں کو نبھانی ضروری ہے۔ مذہبی اقدار کے علاوہ دنیاوی مسابقت اور کیرئر کے حوالے سے نوجوانوں کو اپنے قیمتی وقت کی اہمیت کا احساس دلایا جانا چاہئے۔
4۔
منفی اثر :
ٹی-وی سے کئی مختلف ذرائع منسلک ہیں ، ڈش کے مختلف چینلز ، ویڈیو کیسٹ ، سی-ڈی ، ڈی-وی-ڈی وغیرہ۔ نوجوانوں کے اخلاقی و مذہبی نظریات کو بگاڑنے اور مذہب و ثقافت ، سماجی اقدار سے بغاوت کی راہ دکھانے میں ڈش کے مختلف چینلوں کا جو ہاتھ ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ سی۔ڈی ، ڈی۔وی۔ڈی اور ویڈیوکیسٹ تو سوائے فلمیں اور ریکارڈ شدہ تفریحی تقاریب دیکھنے کے علاوہ کسی دوسرے کام میں کم ہی استعمال ہوتی ہیں۔
ہماری ذمہ داری :
یہاں معاملہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر ڈیل کیا جانا ضروری ہے۔ اس میڈیا کے ذمہ داران اگر صرف ذاتی مفاد کے بجائے قوم کے وسیع تر دینی و اخلاقی مفاد کو مدنظر رکھیں تو بہت حد تک سماجی انتشار سے بچا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو انفرادی سطح پر ہر گھرانے یا محلہ جاتی سطح پر سرپرستوں اور اصلاح پسندوں کو ایکشن لینا ہوگا۔ ایکشن لینے کے لئے انتخاب بھی نوجوان نمائیندوں کا کیا جانا چاہئے۔
5۔
منفی اثر :
انٹرنیٹ دور حاضر کا وہ جادوئی چراغ ہے جس کو بجا طور دو دھاری تلوار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ فطرت انسانی میں نیکی کی بہ نسبت گناہ کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے لہذا نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات بھی دیگر میڈیا کے مقابلے میں زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ لامحدود وقت کی بلاوجہ کی سرفنگ ، صنف مخالف سے چیٹنگ یا ربط و ضبط کا بخار ، کمپیوٹر کے سامنے مسلسل وقت گزاری کے سبب صحت پر خراب اثرات اور معاشرتی تعلقات میں کمی ، غلط اور فحش ویب سائیٹس کے روز افزوں معائینے کے باعث اخلاقی و مذہبی رحجانات میں مسلسل کمی ۔۔۔۔ ان جیسے اَن گنت نقصانات ہر ملک اور ہر قوم میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔
ہماری ذمہ داری :
انٹرنیٹ کا معاملہ زیادہ تر والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری پر منحصر کرتا ہے۔ اولاد کو اس دو دھاری تلوار کے کھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر گھر پر کسی قسم کی روک لگائیں تو باہر ہزاروں نیٹ کیفے دامن پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے والدین کو حکمت عملی سے نپٹنا چاہئے۔ اس کے لئے دینی اور دوستانہ ماحول والی فضا کا گھر میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اور کوشش بھی یہی ہو کہ والدین خود اولاد کی نظروں کے سامنے براؤزنگ کریں اور عمومی گفتگو کے ذریعے مختلف ویب سائیٹس پر محتاط تبصروں سے ان کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لیا کریں۔
منفی اثر :
اخبارات کا شمار میڈیا کے سب سے قدیم ذرائع میں اگر ہوتا ہے تو اس کے منفی اثرات بھی اتنے ہی پرانے جانے جاتے ہیں۔ دورِ حاضر کے اخبارات نے تو مادہ پرستی کی دوڑ میں تہذیب ، شائستگی ، رواداری ، اخلاقیات اور مذہبی نظریات کو یکسر پسِ پشت ڈال دیا ہے جس کا واضح نتیجہ نوجوانوں کی بےراہ روی اور گمراہی کے راستوں کی جانب بلا روک ٹوک سفر کی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔
اخبارات کی بےبنیاد اور جھوٹی خبروں پر اشتعال ، سنسنی خیز اور جذباتی سیاست پر مذہبی طبقاتی ٹکراؤ ، قتل و خون و غارت گری کی آزادانہ عکاسی پر انتقامی رویوں کا عروج ، فحش فکر و نظر کی ترویج پر اخلاقیات کا زوال ۔۔۔۔ یہ چند مثالیں ہیں۔
ہماری ذمہ داری :
ہر دو طبقے پر ذمہ داری کا بوجھ بانٹا جانا چاہئے۔ ایک وہ گروہ جو خود صحافت سے وابستہ ہے ، اس کو خود احتسابی کے طور پر اتنا ضرور سوچ لینا چاہئے کہ آگ اگر پڑوس میں پھیلتی ہے تو کسی دن اپنا گھر بھی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
دوسرا طبقہ اصلاح پسندوں کا ہے جس میں والدین ، سرپرست ، اساتذہ ، علماء و دانشوران کو شمار کیا جا سکتا ہے۔ اپنے اپنے تجربے کے لحاظ سے وہ موثر حکمت عملی اپنا سکتے ہیں۔ صرف اپنے گھر اخبارات پر پابندی لگا کر مسئلہ کو حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ نوجوان طبقہ کے ساتھ مثبت و منفی اثرات پر کھل کر گفتگو وقت کا تقاضا ہے۔
2۔
منفی اثر :
ڈائجسٹ اور رسائل ہر چند کہ راست میڈیا کے زمرے میں نہیں آتے مگر بہرحال یہ بھی کمیونکیشن کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں۔ تازہ ترین فیشن کے پیچھے دوڑ ، فلمی ہستیوں کی تقلید ، جھوٹی سچی کہانیوں کے نشے میں زندگی کے حقائق و فرائض سے فرار ۔۔۔ یہ منفی اثرات ہمارے معاشرے کے اکثر و بیشتر طبقات میں محسوس کئے گئے ہیں۔
ہماری ذمہ داری
اس ضمن میں والدین اور سرپرستوں کو اپنی ذمہ داری کا زیادہ احساس کرنا چاہئے۔ انہیں اس تاثر کو عملی اور قولی طور سے ترویج دینا چاہئے کہ گھر میں صرف وہی رسائل اور ڈائجسٹ آئیں جنہیں ایک دوسرے کے سامنے پڑھتے ہوئے کسی کو کسی سے شرم محسوس نہ ہو۔ یہ کام مشکل تو ہے مگر ہر کام ابتدا میں مشکل ہی لگتا ہے مگر جب عملی طور پر خود بھی اس اصول کا پابند ہوا جائے تو آہستہ آہستہ دیگر سب بھی عادی ہو جاتے ہیں۔
3۔
منفی اثر :
ریڈیو آج کل دوبارہ عروج پر آنے کی کوششوں میں لگا ہے۔ ایف ایم ریڈیو کی مقبولیت تقریباً ہر ملک میں دکھائی دے جاتی ہے۔ نوجوانوں کے قیمتی وقت کو "وقت گزاری" کے نام پر جو یہ ریڈیو چینلز تباہ کر رہے ہیں ، اس کے منفی اثرات فی الحال زیادہ محسوس نہیں کئے جاتے۔
ہماری ذمہ داری
یہاں بھی زیادہ تر ذمہ داری والدین اور سرپرستوں کو نبھانی ضروری ہے۔ مذہبی اقدار کے علاوہ دنیاوی مسابقت اور کیرئر کے حوالے سے نوجوانوں کو اپنے قیمتی وقت کی اہمیت کا احساس دلایا جانا چاہئے۔
4۔
منفی اثر :
ٹی-وی سے کئی مختلف ذرائع منسلک ہیں ، ڈش کے مختلف چینلز ، ویڈیو کیسٹ ، سی-ڈی ، ڈی-وی-ڈی وغیرہ۔ نوجوانوں کے اخلاقی و مذہبی نظریات کو بگاڑنے اور مذہب و ثقافت ، سماجی اقدار سے بغاوت کی راہ دکھانے میں ڈش کے مختلف چینلوں کا جو ہاتھ ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ سی۔ڈی ، ڈی۔وی۔ڈی اور ویڈیوکیسٹ تو سوائے فلمیں اور ریکارڈ شدہ تفریحی تقاریب دیکھنے کے علاوہ کسی دوسرے کام میں کم ہی استعمال ہوتی ہیں۔
ہماری ذمہ داری :
یہاں معاملہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر ڈیل کیا جانا ضروری ہے۔ اس میڈیا کے ذمہ داران اگر صرف ذاتی مفاد کے بجائے قوم کے وسیع تر دینی و اخلاقی مفاد کو مدنظر رکھیں تو بہت حد تک سماجی انتشار سے بچا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو انفرادی سطح پر ہر گھرانے یا محلہ جاتی سطح پر سرپرستوں اور اصلاح پسندوں کو ایکشن لینا ہوگا۔ ایکشن لینے کے لئے انتخاب بھی نوجوان نمائیندوں کا کیا جانا چاہئے۔
5۔
منفی اثر :
انٹرنیٹ دور حاضر کا وہ جادوئی چراغ ہے جس کو بجا طور دو دھاری تلوار سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ فطرت انسانی میں نیکی کی بہ نسبت گناہ کی طرف رغبت زیادہ ہوتی ہے لہذا نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات بھی دیگر میڈیا کے مقابلے میں زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ لامحدود وقت کی بلاوجہ کی سرفنگ ، صنف مخالف سے چیٹنگ یا ربط و ضبط کا بخار ، کمپیوٹر کے سامنے مسلسل وقت گزاری کے سبب صحت پر خراب اثرات اور معاشرتی تعلقات میں کمی ، غلط اور فحش ویب سائیٹس کے روز افزوں معائینے کے باعث اخلاقی و مذہبی رحجانات میں مسلسل کمی ۔۔۔۔ ان جیسے اَن گنت نقصانات ہر ملک اور ہر قوم میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔
ہماری ذمہ داری :
انٹرنیٹ کا معاملہ زیادہ تر والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری پر منحصر کرتا ہے۔ اولاد کو اس دو دھاری تلوار کے کھیلنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ اگر گھر پر کسی قسم کی روک لگائیں تو باہر ہزاروں نیٹ کیفے دامن پھیلائے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے والدین کو حکمت عملی سے نپٹنا چاہئے۔ اس کے لئے دینی اور دوستانہ ماحول والی فضا کا گھر میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اور کوشش بھی یہی ہو کہ والدین خود اولاد کی نظروں کے سامنے براؤزنگ کریں اور عمومی گفتگو کے ذریعے مختلف ویب سائیٹس پر محتاط تبصروں سے ان کے فوائد و نقصانات کا جائزہ لیا کریں۔