حجاب
محفلین
میڈیا کا مثبت یا منفی کردار اپنانا ہماری تربیت پر ہے ،ہمارا معاشرہ ترقی کی کسی بھی راہ پر گامزن ہو جائے میڈیا کچھ بھی دکھا اور سکھا رہا ہو اگر ہماری آج کی نسل کو اچھائی اور برائی کا فرق پتہ ہو تو وہ کسی بھی چیز کا کوئی اثر لینے سے پہلے یہ ضرور سوچے گی کہ یہ چیز اُس کے لیئے اچھی ہے یا بری ،الیکٹرانک میڈیا سے اگر کسی غیر اخلاقی چیز کی نمائش کی جا رہی ہو تو یہ ضروری نہیں کہ اُس کو دیکھ کر اس کا منفی اثر لیا جائے اُس کو صرف انجوائے منٹ کی حد تک کیوں نہ دیکھا جائے ؟ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کسی چیز کے مثبت پہلو پر عمل کرتے ہیں یا منفی ؟
بچوں کی تربیت کا وہ سہنرا دور جس وقت بچوں کو والدین کی ضرورت ہوتی ہے بچّے وہ ٹائم کیبل کی فضول نشریات دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں، والدین کے پاس ٹائم نہیں ہوتا کہ وہ بچّوں کو چیک کر سکیں کہ اُن کا بچّہ ذہنی تفریح کے نام پر کیبل سے چلنے والے چینلز سے کیا سیکھ اور سمجھ رہا ہے ،میڈیا کی تربیت کے ساتھ بڑے ہوتے بچّے جب ذرا اور شعور کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ڈراموں میں دکھایا جانے والا لائف اسٹائل بڑی بڑی گاڑیاں بنگلے بچّوں میں مادہ پرستی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اگر بچوں کو گھر سے پیسے نہ ملیں تو وہ اس کے حصول کے لیئے کوئی بھی طریقہ اختیار کر لینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے کیونکہ میڈیا اُن کو یہی سکھا رہا ہوتا ہے کہ ایک فلم کا ہیرو کس طرح منفی رویے اپنا کر زبردستی کسی سے کوئی چیز چھین سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ایسا ؟؟
آج کی نسل کو میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے کے لیئے سب سے پہلی ضرورت والدین کی تربیت ہے کیونکہ بچّہ جو چیز سات سال کی عمر میں سیکھتا ہے وہ ستر سال کی عمر تک اُس پر عمل کرتا ہے جس نوجوان کی تربیت صحیح طرح ہوگی وہ میڈیا پر دکھائے جانے والی کوئی بھی چیز دیکھ کر اُس پر منفی عمل کرنے سے پہلے یہ بات ضرور سوچے گا کہ یہ چیز اُس کے لیئے غلط ہے یا صحیح ؟ اسی طرح ہمارے ٹی وی چینلزاور موویز بنانے والوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈراموں اور موویز میں ہماری زندگی سے قریب تر واقعات پر ڈرامے اور موویز بنائیں، بچّے جس طرح منفی انداز میں پیش کیئے گئے ہیرو کو اپنی پسند بناتے ہیں اس طرح مثبت انداز کی سوچ کو بھی ضرور اپنائیں گے ،مگر اب اس منفی اثر کو مثبت انداز میں تبدیل ہونے میں آج کی نوجوان نسل بوڑھی ہوجائے گی اور شائد آج کی میڈیا سے ملنے والے سبق سے جو صرف خواب کی دنیا کی زندگی پیش کرتا ہے اُس سے اپنے آنے والی نسلوں کوخوابوں میں گُم ہونے سے بچا لے ، اور ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے جب ہمارے الیکٹرانک ، پرنٹ اور آؤٹ ڈور میڈیا آج کی جدید اور گلیمرس دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے خوابوں کی دنیا سے نکل کر، ہر بات کو منفی انداز میں لکھنا اور دکھانا چھوڑ دیں ، ایک طرح سے یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ مانا آج کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں اگر والدین کے پاس بچوں کی تربیت کا ٹائم نہیں اور یہ ذمہ داری میڈیا نے لے ہی لی ہے تو کیوں نہ میڈیا ایک اچھے والدین کی طرح آج کی نسل کی اچھی طرح پرورش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے نوجوان نسل کو مزید تباہی کی طرف بڑھنے سے بچا لے، میڈیا ہی اپنے منفی اثرات کو مثبت انداز میں تبدیل کر سکتا ہے ۔
بچوں کی تربیت کا وہ سہنرا دور جس وقت بچوں کو والدین کی ضرورت ہوتی ہے بچّے وہ ٹائم کیبل کی فضول نشریات دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں، والدین کے پاس ٹائم نہیں ہوتا کہ وہ بچّوں کو چیک کر سکیں کہ اُن کا بچّہ ذہنی تفریح کے نام پر کیبل سے چلنے والے چینلز سے کیا سیکھ اور سمجھ رہا ہے ،میڈیا کی تربیت کے ساتھ بڑے ہوتے بچّے جب ذرا اور شعور کی عمر تک پہنچتے ہیں تو ڈراموں میں دکھایا جانے والا لائف اسٹائل بڑی بڑی گاڑیاں بنگلے بچّوں میں مادہ پرستی پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور اگر بچوں کو گھر سے پیسے نہ ملیں تو وہ اس کے حصول کے لیئے کوئی بھی طریقہ اختیار کر لینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے کیونکہ میڈیا اُن کو یہی سکھا رہا ہوتا ہے کہ ایک فلم کا ہیرو کس طرح منفی رویے اپنا کر زبردستی کسی سے کوئی چیز چھین سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ایسا ؟؟
آج کی نسل کو میڈیا کے منفی اثرات سے بچانے کے لیئے سب سے پہلی ضرورت والدین کی تربیت ہے کیونکہ بچّہ جو چیز سات سال کی عمر میں سیکھتا ہے وہ ستر سال کی عمر تک اُس پر عمل کرتا ہے جس نوجوان کی تربیت صحیح طرح ہوگی وہ میڈیا پر دکھائے جانے والی کوئی بھی چیز دیکھ کر اُس پر منفی عمل کرنے سے پہلے یہ بات ضرور سوچے گا کہ یہ چیز اُس کے لیئے غلط ہے یا صحیح ؟ اسی طرح ہمارے ٹی وی چینلزاور موویز بنانے والوں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ڈراموں اور موویز میں ہماری زندگی سے قریب تر واقعات پر ڈرامے اور موویز بنائیں، بچّے جس طرح منفی انداز میں پیش کیئے گئے ہیرو کو اپنی پسند بناتے ہیں اس طرح مثبت انداز کی سوچ کو بھی ضرور اپنائیں گے ،مگر اب اس منفی اثر کو مثبت انداز میں تبدیل ہونے میں آج کی نوجوان نسل بوڑھی ہوجائے گی اور شائد آج کی میڈیا سے ملنے والے سبق سے جو صرف خواب کی دنیا کی زندگی پیش کرتا ہے اُس سے اپنے آنے والی نسلوں کوخوابوں میں گُم ہونے سے بچا لے ، اور ایسا صرف اُس وقت ممکن ہے جب ہمارے الیکٹرانک ، پرنٹ اور آؤٹ ڈور میڈیا آج کی جدید اور گلیمرس دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے خوابوں کی دنیا سے نکل کر، ہر بات کو منفی انداز میں لکھنا اور دکھانا چھوڑ دیں ، ایک طرح سے یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ مانا آج کی دوڑتی بھاگتی زندگی میں اگر والدین کے پاس بچوں کی تربیت کا ٹائم نہیں اور یہ ذمہ داری میڈیا نے لے ہی لی ہے تو کیوں نہ میڈیا ایک اچھے والدین کی طرح آج کی نسل کی اچھی طرح پرورش کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے نوجوان نسل کو مزید تباہی کی طرف بڑھنے سے بچا لے، میڈیا ہی اپنے منفی اثرات کو مثبت انداز میں تبدیل کر سکتا ہے ۔