فہیم
لائبریرین
میڈیا کے منفی اثرات
دنیا میں جو چیزیں روز بروز زور پکڑتی جارہی ہیں۔
ان میں ایک جانا پہچانا سا نام میڈیا بھی ہے۔
میڈیا کیا اور کیوں ہے اس کا ہر کسی کو معلوم ہے۔
لیکن میڈیا کے کیا فوائد اور کیا نقصانات ہیں۔ ان کا علم ہر ایک کو نہیں۔
خاص کر آج کی نوجوان نسل کو تو اس کا بالکل بھی احساس نہیں کہ وہ میڈیا کے ذریعے اپنی اصلاح کررہے ہیں یا خود کو پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔
میڈیا خاص کر الیکٹرونک میڈیا کے آج کی نوجوان نسل پر بےحد منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
جن کی فہرست تو کافی طویل ہے لیکن ہم یہاں ان میں سے کچھ کی نشاندہی کریں گے۔
جبر و تشدد سیکھانا
جذباتی نقائص پیدا کرنا
خوبصورتی کے غلط معیار کو پھیلانا
اشیاء خریدنے والے کو اشتہاران میں غلط انفارمیشن دینا
عوام کے رجہان کو غلط راہ پر لے جانا
تشدد ، فرقہ پرستی ۔ ہومو فوبیک اور جنسی گانوں کی میڈیا میں بہتاب نے نوجوانوں میں انفرادیت، خود کی پہچان اورخود سے محبت کو زبردست دھچکا لگایا ہے۔
کسی اور کے یا غلط حسن معیار کو فروغیت دینے سے نوجوانوں اپنی خود کی پسند سے دور ہوجاتے ہیں اور پیش کیے ہوئے معیار کو صحیح سمجھنے لگتے ہیں۔ نوجوان لڑکیاں اس کی ایک مثال ہیں۔
اسمارٹ اور گورا ہونا کس لڑکی کا خواب نہیں ہوتا!
آج جب بھی ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھیں تو ہمیں جگہ جگہ سے طویل وقت پر مشتمل اشہتار چلتے ملتے ہیں۔ جو زیادہ تر رنگ گورا کرنے کی کریموں یا پھر وزن کم کرنے ادوایات پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اور آج کل نوجوان لڑکیاں بغیر کسی جانچ پرتال کے ان پروڈکٹز کو استعمال میں لیتی ہیں۔
اس سے جذباتی نقائص پیدا ہوتے ہیں۔ اور بولیمییا ، انوریسیا کی جسمانی بیماریا پھلتی ہیں اور نقصان دہ خوراک کا استعمال ہونے لگتا ہے۔ اسی قسم کے اشتہارت کی وجہ سے نوجوانوں کے لیے یہ مشکل ہوجاتاہے کہ ان پروڈکٹ میں کونسی نقصان دہ ہیں۔
اور وہ کس طرح ان میں سے درست پراڈکٹ کا چناؤ کریں۔
میڈیا کی وجہ سے وضع، ڈھنگ، سوچ فکر میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ میڈیا کی کوشش نوجوانوں کی سماجی اور سیاسی بیداری کی طرف لیجانا نہیں بلکہ ان کو ایک ماحول میں رنگنا ہے۔
آج کا دور تیز رفتار دور ہے بچے ہوں یا نوجوان ہر کوئی اپنے ذہن پر کسی بھی قسم کے اثرات بہت جلد لے لیتا ہے۔
آج کے دور میں جہاں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ بہت زیادہ تشدد آمیز یا پھر ایسی خبروں کی پبلسٹی نہ کریں جن سے عوام میں انتشار پیدا ہو۔
لیکن ہوتا اس سے الٹ ہے۔ ہر خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک کی چار اور چار کی آٹھ باتیں بنادی جاتیں ہیں۔
لوگ یہ خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں اور ذینی انتشار میں گرفتار رہتے ہیں۔
خاص کر نوجوان نسل ایسی باتیں ان کے ذہنوں نے کسی جونک کی طرح چمٹ جاتی ہیں۔
اور پھر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آج کل نوجوانوں کی نشستوں میں آپ کو ایسی ہی خبروں پر باتیں، تبصرے اور بحثیں ہوتی ملیں گی۔
اس طرح ایک نوجوان اپنا دماغ کسی بھی اچھے کام میں جو اس کے مستقبل کے لیے بہتر ہو پوری طرح نہیں لگاپاتا اور آخر خار اس کا مستقبل اتنا شاندار نہیں ہوتا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔
تو پھر اس ہم اور تم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑا عمل ہمیں اس حقیقت کا اعترا ف کرنا ہوگا کہ میڈیا اچھا بھی ہوسکتا ہے اور معاشرے میں اچھائیاں بھی پیدا کرسکتا ہے اس کے ہم ہمیں ان پروگرامز کو ترقی دینا چایئے جو اخلاقیات ، بھائی چارہ ۔ مل کر رہنا ۔ غیر مذاہب کے لوگوں سے محبت کا سلوک کرنا ، اقلیت کے ساتھ انصافانہ سلوک کرنا سیکھاتے ہیں۔ اس ہی منظم جماعتوں میں اپنا وقت دینا جو ان اصولوں کو پھیلاتی ہیں۔
یہ کوشش کرنا کہ یہ جرنلسٹ اور میڈیا کے مالکان ایسے قانونوں کی حمایت کریں جو لوگو ں میں تفاوت اور فرق کو ختم کرتے ہوں
والدین کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان میں صحیح کو غلط انفارمیشن مین امتیاز کر نا سیکھائیں ۔ ان کو میڈیا کی بے ایمانی، دھوکہ بازی اور غلط بیانی کو پہچانے کی تربیت دیں۔
انہیں بتائیں کہ خوبصورتی کے ایک سے زیادہ معیار ہوتے ہیں۔
(تمام شد)