احمدبلوچ
محفلین
آج 3 بجے شام کا بلئیٹن سننے کا اتفاق ہوا ۔۔
خبر ایسی کہ پیروں تلے سے زمین نکل گئی
جی ہاں !ماں کی آنکھوں کا تارہ ۔۔ باپ کے مستقبل کی کرن۔۔
آنکھوں میں بہترین مسقبل کے سپنے سجائے ۔۔ سکول آنے والا جوان
آئندہ کبھی سکول نہ آ سکے گا
اٹھتی جوانی میں عشق کا خمار ۔۔۔۔ محبوبہ کا پیار دینے سے انکار
اور پھر ہوا کیا ۔۔۔۔؟؟؟
ایک عزت دار گھرانے کی ایسی کلی جس نے ابھی مہکنا شروع کیا تھا اس کی جان کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنی جان کی بازی بھی ہار گیا
قصوروار کون ؟؟ ۔۔۔۔ کس کی تربیت میں کمی ؟؟
والدین ۔۔ ؟؟ اساتذہ ۔۔ ؟؟ یا پھر معاشرہ ۔۔ ؟؟
اگر اس پر تبصرہ کرنے کو کہا جائے ۔۔۔ تویقینا چند ہی لمحوں میں ہم تبصروں کی دنیا میں لگے انبار میں گم ہو چکے ہونگے
دل غم سے نڈھال ہے ۔۔۔ ورثاء کے غم کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔۔
ہماری قوم روزانہ ایسے معاملات کو دیکھتی ، سنتی ہے اور پھر اسکو معمول کی کاروائی سمجھ کر بھلا دیتی ہے
لیکن چند باتیں جو میں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔۔۔۔
کہ شائد اس پر تھوڑی سی توجہ سے ہم آئندہ ایسے حادثات سے محفوظ رہ سکیں اور اس غم کا کچھ مداوہ ہو سکے ۔۔
"جس کا غم اسی کا غم "۔۔۔۔ ہمیں اس فارمولے کو اپنی زندگی سے نکالنا ہو گا
ہم سب کو معاشرتی زندگی میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا خواہ ہم کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہوں
ایک استاد ہونے کے ناطے ،، بحیثیت والدین ،، خاندان کا ذمہ دار ،، یا پھر کوئی بھی ذمہ داری میرے کندھوں پر ہو
میرا یہ فرض ہے کہ میں باقی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی نوجوان نسل ، اپنی قوم کے مستقبل کی تربیت کروں
ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھوں ۔ انکی زندگی کا ہدف انکے سامنے واضح کر کے رکھوں ۔
بچوں کا ذہن معصوم اور صاف ہوتا ہے ۔ وہ جو دیکھتے ہیں ویسا بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی قوم کے معماروں کی تربیت ہم خود کریں
نہ کہ فلمیں ، ڈرامے ، کارٹون اور دیگر غیر ملکی دشمن کے ہتھکنڈے
جب ہماری تربیت شفاف ہو گی تو پھر محنت رنگ لائے گی
اور ہمارے یہ پھول قوم کی بیٹیوں کی عزت سے کھیلنےکی بجائے انکے آنچل کی حفاظت کرینگے اور
حسیناؤں پر مرنے کی بجائے ۔۔ وطن کی مٹی اور اسلام کے لئے جانیں قربان کرنا پسند کریں گے
خبر ایسی کہ پیروں تلے سے زمین نکل گئی
جی ہاں !ماں کی آنکھوں کا تارہ ۔۔ باپ کے مستقبل کی کرن۔۔
آنکھوں میں بہترین مسقبل کے سپنے سجائے ۔۔ سکول آنے والا جوان
آئندہ کبھی سکول نہ آ سکے گا
اٹھتی جوانی میں عشق کا خمار ۔۔۔۔ محبوبہ کا پیار دینے سے انکار
اور پھر ہوا کیا ۔۔۔۔؟؟؟
ایک عزت دار گھرانے کی ایسی کلی جس نے ابھی مہکنا شروع کیا تھا اس کی جان کے ساتھ کھیلتے ہوئے اپنی جان کی بازی بھی ہار گیا
قصوروار کون ؟؟ ۔۔۔۔ کس کی تربیت میں کمی ؟؟
والدین ۔۔ ؟؟ اساتذہ ۔۔ ؟؟ یا پھر معاشرہ ۔۔ ؟؟
اگر اس پر تبصرہ کرنے کو کہا جائے ۔۔۔ تویقینا چند ہی لمحوں میں ہم تبصروں کی دنیا میں لگے انبار میں گم ہو چکے ہونگے
دل غم سے نڈھال ہے ۔۔۔ ورثاء کے غم کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔۔
ہماری قوم روزانہ ایسے معاملات کو دیکھتی ، سنتی ہے اور پھر اسکو معمول کی کاروائی سمجھ کر بھلا دیتی ہے
لیکن چند باتیں جو میں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔۔۔۔
کہ شائد اس پر تھوڑی سی توجہ سے ہم آئندہ ایسے حادثات سے محفوظ رہ سکیں اور اس غم کا کچھ مداوہ ہو سکے ۔۔
"جس کا غم اسی کا غم "۔۔۔۔ ہمیں اس فارمولے کو اپنی زندگی سے نکالنا ہو گا
ہم سب کو معاشرتی زندگی میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا خواہ ہم کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہوں
ایک استاد ہونے کے ناطے ،، بحیثیت والدین ،، خاندان کا ذمہ دار ،، یا پھر کوئی بھی ذمہ داری میرے کندھوں پر ہو
میرا یہ فرض ہے کہ میں باقی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنی نوجوان نسل ، اپنی قوم کے مستقبل کی تربیت کروں
ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھوں ۔ انکی زندگی کا ہدف انکے سامنے واضح کر کے رکھوں ۔
بچوں کا ذہن معصوم اور صاف ہوتا ہے ۔ وہ جو دیکھتے ہیں ویسا بننے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔
تو ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی قوم کے معماروں کی تربیت ہم خود کریں
نہ کہ فلمیں ، ڈرامے ، کارٹون اور دیگر غیر ملکی دشمن کے ہتھکنڈے
جب ہماری تربیت شفاف ہو گی تو پھر محنت رنگ لائے گی
اور ہمارے یہ پھول قوم کی بیٹیوں کی عزت سے کھیلنےکی بجائے انکے آنچل کی حفاظت کرینگے اور
حسیناؤں پر مرنے کی بجائے ۔۔ وطن کی مٹی اور اسلام کے لئے جانیں قربان کرنا پسند کریں گے