میں‌ تم کو اپنے خیالوں میں ، کیا نہیں کہتا

ظفری

لائبریرین

میں‌ تم کو اپنے خیالوں میں ، کیا نہیں کہتا
خدا کے ڈر سے تمہیں بس ، خدا نہیں کہتا

یہ اتفاق نہیں ، تم جو مل گئے ہو مجھے
نصیب کو میں‌ کبھی ، حادثہ نہیں کہتا

ملے نہ کاش رہائی، تمہاری زلفوں سے
یہ وہ سزا ہے جسے میں ، سزا نہیں کہتا

نگاہِ یار سے ہوگا ، میرے غموں کا علاج
میں چارہ گر کی دوا کو ، دوا نہیں کہتا

شاعر : نامعلوم
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے - میرا خیال ہے ظفری کہ آپکو جو بھی گائی ہوئی غزل پسند آتی ہے وہ سن کر آپ یہاں‌لکھ دیتے ہیں‌- میرا خیال ہے آپ کو غزلیں پڑھنے سے زیادہ سننے سے دلچسپی ہے - :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شمشاد صاحب غور سے پڑھیے میں نے پہلے کہا ہے کہ لکھتے ہیں اور پھر کہا سننے سے دلچسپی ہے - لیکن بہر حال ظفری صاحب کو شاعری پڑھنے سے تو یقینا" دلچسپی نہیں -
 

محسن حجازی

محفلین
:grin:تو سننے پر کیا پابندی ہے؟
گائی ہوئی غزل کی اپنی ہی موجیں ہیں۔

شیخ سی تھوڑی سی پی کر آئیے۔
مے ہےکیا شے پھر ہمیں بتلائیے۔
آپ کیوں ہیں ساری دنیا سے جدا
آپ بھی دشمن میرے ہو جائیے۔
کیا ہے اچھا کیابرا بندہ نواز
آپ سمجھیں تو ہمیں سمجھائیے
جانے دیجیے عقل کی باتیں جناب
دل کی سنئے اور پیتے جائیے
الجھنیں دنیا کی سلجھا لیں گے ہم
آپ اپنی زلف تو سلجھائیے

یہ ہے وہ غزل جو میں اس وقت سن رہا ہوں۔ :cool:
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب غزل ہے - محسن صاحب بالکل سننے پر کوئی پابندی نہیں‌ بلکہ کن رس لوگ تو بہت کم ہوتے ہیں - :)
شیخ صاحب سے مئے کا جواز کیا پوچھیں
چاندنی کو بھی حضرت حرام کہتے ہیں
(فیض)
 
Top