نمرہ
محفلین
اختر شیرانی کی زمین میں۔
میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو
اس سے کہیں بلند ہے وہ جان آرزو
پیہم امید و یاس میں جینا سکھا دیا
سر پر سدا رہے گا یہ احسان آرزو
سمجھے گا میرے حال کو کیونکر کہ عشق سے
واقف نہیں ہنوز وہ انجان آرزو
ہجراں کی تیرہ شب میں بھی امید کے چراغ
جلتے ہیں شام سے سر ایوان آرزو
وہ کیا نبھا سکیں گے فقیروں سے عشق کے
یونہی کیے گئے سبھی پیمان آرزو
ملنا محال تو نہیں ایسا پہ شرط ہے
بہر تلاش چاہیے ایقان آرزو
دل کی طرح سے یہ بھی دکھایا نہ جائے گا
روتے ہیں دیکھ دیکھ کے دیوان آرزو
قید نگہ سے پائیں نہ مر کر بھی ہم نجات
رکھتے ہیں آرزو یہ اسیران آرزو
شاید نہ ہارتا کبھی رکھتا اگر وجود
میری خرد سے ہی مرا ایمان آرزو
غربت پہ میری رشک کرے کیوں نہ بوالہوس
گھر میں نہیں ہے کچھ سوا سامان آرزو
برگشتہ طالعی نے کچھ اپنا بھلا کیا
آیا نہ ہاتھ میں کبھی دامان آرزو
سچ ہے کہ اپنی پاکئی داماں کے ساتھ ساتھ
ہم بھی کبھی رہے ہیں پشیمان آرزو
میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو
اس سے کہیں بلند ہے وہ جان آرزو
پیہم امید و یاس میں جینا سکھا دیا
سر پر سدا رہے گا یہ احسان آرزو
سمجھے گا میرے حال کو کیونکر کہ عشق سے
واقف نہیں ہنوز وہ انجان آرزو
ہجراں کی تیرہ شب میں بھی امید کے چراغ
جلتے ہیں شام سے سر ایوان آرزو
وہ کیا نبھا سکیں گے فقیروں سے عشق کے
یونہی کیے گئے سبھی پیمان آرزو
ملنا محال تو نہیں ایسا پہ شرط ہے
بہر تلاش چاہیے ایقان آرزو
دل کی طرح سے یہ بھی دکھایا نہ جائے گا
روتے ہیں دیکھ دیکھ کے دیوان آرزو
قید نگہ سے پائیں نہ مر کر بھی ہم نجات
رکھتے ہیں آرزو یہ اسیران آرزو
شاید نہ ہارتا کبھی رکھتا اگر وجود
میری خرد سے ہی مرا ایمان آرزو
غربت پہ میری رشک کرے کیوں نہ بوالہوس
گھر میں نہیں ہے کچھ سوا سامان آرزو
برگشتہ طالعی نے کچھ اپنا بھلا کیا
آیا نہ ہاتھ میں کبھی دامان آرزو
سچ ہے کہ اپنی پاکئی داماں کے ساتھ ساتھ
ہم بھی کبھی رہے ہیں پشیمان آرزو