میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو

نمرہ

محفلین
اختر شیرانی کی زمین میں۔

میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو
اس سے کہیں بلند ہے وہ جان آرزو
پیہم امید و یاس میں جینا سکھا دیا
سر پر سدا رہے گا یہ احسان آرزو
سمجھے گا میرے حال کو کیونکر کہ عشق سے
واقف نہیں ہنوز وہ انجان آرزو
ہجراں کی تیرہ شب میں بھی امید کے چراغ
جلتے ہیں شام سے سر ایوان آرزو
وہ کیا نبھا سکیں گے فقیروں سے عشق کے
یونہی کیے گئے سبھی پیمان آرزو
ملنا محال تو نہیں ایسا پہ شرط ہے
بہر تلاش چاہیے ایقان آرزو
دل کی طرح سے یہ بھی دکھایا نہ جائے گا
روتے ہیں دیکھ دیکھ کے دیوان آرزو
قید نگہ سے پائیں نہ مر کر بھی ہم نجات
رکھتے ہیں آرزو یہ اسیران آرزو
شاید نہ ہارتا کبھی رکھتا اگر وجود
میری خرد سے ہی مرا ایمان آرزو
غربت پہ میری رشک کرے کیوں نہ بوالہوس
گھر میں نہیں ہے کچھ سوا سامان آرزو
برگشتہ طالعی نے کچھ اپنا بھلا کیا
آیا نہ ہاتھ میں کبھی دامان آرزو
سچ ہے کہ اپنی پاکئی داماں کے ساتھ ساتھ
ہم بھی کبھی رہے ہیں پشیمان آرزو
 

فاتح

لائبریرین
واہ کیا خوب غزل ہے۔
ویسے مطلع کا پہلا مصرع " میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو" کچھ زیادہ ہی قریب نہیں ہو گیا اختر شیرانی کی غزل کے پہلے مصرع "میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو" کے؟'تو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزو':laughing:
 

نمرہ

محفلین
بہت خوب!

انجان ہندی/سنسکرت لفظ ہے اس لیے اس کے ساتھ کسرۂ اضافت کا استعمال درست نہیں۔
صحیح نشان دہی کی ہے، شکریہ! مجھے تو شک تھا کہ عربی اور فارسی کے الفاظ بھی شاید جوڑے نہیں جا سکتے مگر اس طرح کی ترکیبیں بہت مستعمل ہیں۔
 

نمرہ

محفلین
واہ کیا خوب غزل ہے۔
ویسے مطلع کا پہلا مصرع " میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو" کچھ زیادہ ہی قریب نہیں ہو گیا اختر شیرانی کی غزل کے پہلے مصرع "میں آرزوئے جاں لکھوں یا جان آرزو" کے؟'تو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزو':laughing:
جی ہاں یہ مسئلہ ہے ، اسی لیے تو میں نے پہلے ہی اختر کا نام لکھ دیا۔ اگر کوئی صلاح یا اصلاح ہو تو بتائیے۔
 

نمرہ

محفلین
کوئی اصلاح تو نہیں، ہاں صلاح یہی ہے کہ اگر ممکن ہو تو اسے کچھ مختلف کر دیں۔
اسے یوں کر دیا ہے
میں اس کا نام لے کے کہوں شان آرزو
اس سے کہیں بلند ہے وہ جان آرزو

انجان کے بجائے اگر یوں کر دوں

سمجھے گا میرے درد کو وہ شخص کس طرح
جو خود کبھی رہا نہیں مہمان آرزو
 

فاتح

لائبریرین
اسے یوں کر دیا ہے
میں اس کا نام لے کے کہوں شان آرزو
اس سے کہیں بلند ہے وہ جان آرزو

انجان کے بجائے اگر یوں کر دوں

سمجھے گا میرے درد کو وہ شخص کس طرح
جو خود کبھی رہا نہیں مہمان آرزو
انجان پر اضافت کے متعلق میری رائے مختلف ہے۔ میں نے ایک اور لڑی میں لکھا تھا کہ:
میری رائے میں جو لفظ اردو کا حصہ بن چکے ہیں ان کو ان کا شجرۂ نسب کھنگالے بغیر ہی استعمال کر لینا چاہیے یعنی الفاظ خواہ کسی بھی زبان سے آئے ہوں لیکن اگر اب وہ اردو کا حصہ ہیں تو ان پر قواعد بھی اردو ہی کے لاگو ہونے چاہیے بلا تفریق نا کہ اضافت کی زیر یا عطف کا واؤ لگانے سے پہلے ڈکشنریاں کھنگالی جائیں کہ کس زبان سے چلا تھا کہاں رکا اور کہاں پہنچا۔ یہ کام لنگوسٹکس کے حوالے سے تو ٹھیک ہے لیکن جملہ یا مصرع لکھنے یا ہر لفظ لکھنے سے پہلے یہ کام کرنا میری رائے میں تو بہت بڑا بوجھ ہے اور زبان کے فروغ کی راہ میں ایک رکاوٹ۔
قدما کے ہاں بھی ایسی مثالیں مل جاتی ہیں کہ انگریزی سے آئے ہوئے لفظ کو بھی مرکبات میں پرو دیا ہے۔ قائم چاند پوری کا ایک شعر ذہن میں آ رہا ہے لیکن زبان پر چڑھ کر نہیں دے رہا۔ یاد آتا ہے تو شامل کرتا ہوں۔
وہ شعر جو میرے ذہن میں آ رہا تھا، وہ قائم کا نہیں بلکہ نصیر کا تھا۔
یہ دل ہدف ہے، طفلِ فرنگی! لگا تفنگ
چپکاتا کیوں یہ کاغذِ پرمٹ ہے بانس پر
شاہ نصیر
permit
اس پر ظہیر بھائی کا جواب بھی آیا تھا:
خوشی ہوئی آپ کے خیالات جان کر اس بارے میں ۔ میں بھی ایک حد تک اسی نقطہء نظر کا حامل ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی ترکیبات کو فروغ دینے کا کام شعوری طور پر ہونا چاہیئے ۔ خصوصا وہ لوگ جو اردوع شاعری کے منظرنامے پر نمایاں ہیں ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجھ ایسے مبتدیوں کے لئے ایسی مثالیں قائم کریں ۔ اردو کے ارتقا اور ترویج کے لئے یہ بہت ضروری ہے ۔
 

نمرہ

محفلین
انجان پر اضافت کے متعلق میری رائے مختلف ہے۔ میں نے ایک اور لڑی میں لکھا تھا کہ:


اس پر ظہیر بھائی کا جواب بھی آیا تھا:
اچھی ترکیب ہے، کاغذ پرمٹ۔

آپ کی رائے سے تو مجھے بھی اتفاق ہے کہ اردو میں آ جانے والے لفظ کو اردو کا سمجھ کر قبول کرنا چاہیے مگر اس تجربے کے لیے تجربہ کار شاعر ہونا شرط ہے۔ نئے شعرا کو میرے خیال میں تو روایت کی جانب زیادہ جھکنا چاہیے، بہ نسبت رعایت کے۔
 

فاتح

لائبریرین
اچھی ترکیب ہے، کاغذ پرمٹ۔
آپ کی رائے سے تو مجھے بھی اتفاق ہے کہ اردو میں آ جانے والے لفظ کو اردو کا سمجھ کر قبول کرنا چاہیے مگر اس تجربے کے لیے تجربہ کار شاعر ہونا شرط ہے۔ نئے شعرا کو میرے خیال میں تو روایت کی جانب زیادہ جھکنا چاہیے، بہ نسبت رعایت کے۔
یہ تجربہ (شعر) شاہ نصیر کا ہے جو آج کے دور کے نہیں بلکہ دو سو سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ بہت بڑے استاد شاعر تھے، شاگردوں کی طویل فہرست میں ذوق بہت بڑا نام ہے۔ اگر انہوں نے اس زمانے میں یہ ترکیب لکھ لی تو آج ہمیں کیا امر مانع ہے۔
 

نمرہ

محفلین
یہ تجربہ (شعر) شاہ نصیر کا ہے جو آج کے دور کے نہیں بلکہ دو سو سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ بہت بڑے استاد شاعر تھے، شاگردوں کی طویل فہرست میں ذوق بہت بڑا نام ہے۔ اگر انہوں نے اس زمانے میں یہ ترکیب لکھ لی تو آج ہمیں کیا امر مانع ہے۔
بالکل اور نصیر کے ہم عصروں کا اس کے بارے میں ردعمل تو میرے علم میں نہیں لیکن یہاں ہم ان کی بات اسی لیے کر رہے ہیں کہ وہ استاد شاعر تھے۔ زبان کے باب میں پیوریٹن ازم روا رکھنے سے میرے خیال میں تو صرف راہیں مسدود ہوتی ہیں اس کے نشونما پانے کی ( اور میں اپنی نثر میں تھوڑی خود سری کے ساتھ بلا ضرورت انگریزی کے الفاظ بھی ٹانک دیتی ہوں اب)۔ اگر میں کسی اور کی شاعری میں ایسی ترکیب پڑھوں تو بالکل اعتراض نہ کروں مگر میری شاعری پر کوئی نکتہ اٹھائے تو مجھے اسے تبدیل کرنا ہی بہتر لگتا ہے۔ ابھی ہی کہیں کسی نے حوالہ دیا کسی بات پر کہ ایسا تو صرف فراز کیا کرتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ ایسی بحثیں میں پڑھا تو کرتی ہوں مگر ان میں پڑنے کا قدوقامت نہیں میرا۔ آپ ضرور لکھیے، میں آپ کے شعر کا حوالہ دوں گی پھر۔ :)
 
نمرہ بٹیا، یہ سارے کے سارے زبردستی والے تبصرے ہیں کیونکہ آپ نے مجبور کیا ہے کہ کچھ مین میخ نکالے جائیں۔ :) :) :)
پیہم امید و یاس میں جینا سکھا دیا
پیہم میں تسلسل سے زیادہ تواتر اور پہ در پہ کا مفہوم ملتا ہے اس لیے یہاں جینے کے ساتھ پیہم کا استعمال کچھ کھٹک رہا ہے۔ :) :) :)
دل کی طرح سے یہ بھی دکھایا نہ جائے گا
ضرورت شعری اپنی جگہ، لیکن اس مقام پر "سے" کا اضافہ کچھ کھل رہا ہے۔ :) :) :)
 
انجان پر اضافت کے متعلق میری رائے مختلف ہے۔
ہندی الفاظ کے ساتھ اردو والی ترکیب اضافت کا معاملہ اپنی جگہ، لیکن "انجان آرزو" کے معاملے میں مرکب اضافی معنوی اعتبار سے بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتا۔ یہاں مقصود مفہوم "آرزو سے انجان" ہے، نہ کہ "آرزو کا انجان"۔ ہم نے تھوڑی دیر غور کیا کہ کوئی ایسی مثال ذہن میں آ جائے جس میں اضافت معنوی اعتبار سے اس انداز میں برتی گئی ہو، لیکن فوری طور پر ایسا کچھ ذہن میں نہیں آیا۔ :) :) :)
 

فاتح

لائبریرین
ہندی الفاظ کے ساتھ اردو والی ترکیب اضافت کا معاملہ اپنی جگہ، لیکن "انجان آرزو" کے معاملے میں مرکب اضافی معنوی اعتبار سے بھی کچھ درست معلوم نہیں ہوتا۔ یہاں مقصود مفہوم "آرزو سے انجان" ہے، نہ کہ "آرزو کا انجان"۔ ہم نے تھوڑی دیر غور کیا کہ کوئی ایسی مثال ذہن میں آ جائے جس میں اضافت معنوی اعتبار سے اس انداز میں برتی گئی ہو، لیکن فوری طور پر ایسا کچھ ذہن میں نہیں آیا۔ :) :) :)
معنوی اعتبار سے اضافت کی ایک مثال تو سامنے کی ہے:
اک وہ کہ آرزوؤں پہ جیتے ہیں عمر بھر
اک ہم کہ ہیں ابھی سے پشیمانِ آرزو
 

نمرہ

محفلین
نمرہ بٹیا، یہ سارے کے سارے زبردستی والے تبصرے ہیں کیونکہ آپ نے مجبور کیا ہے کہ کچھ مین میخ نکالے جائیں۔ :) :) :)

پیہم میں تسلسل سے زیادہ تواتر اور پہ در پہ کا مفہوم ملتا ہے اس لیے یہاں جینے کے ساتھ پیہم کا استعمال کچھ کھٹک رہا ہے۔ :) :) :)

ضرورت شعری اپنی جگہ، لیکن اس مقام پر "سے" کا اضافہ کچھ کھل رہا ہے۔ :) :) :)
مین میخ تو نکالی جائیں گی میرے خیال میں۔ :)

پیہم کا تعلق امید و یاس سے ہے نہ کہ جینے سے، یعنی کہ کبھی امید بندھ جاتی ہے اور کبھی مایوس ہو جاتا ہے آدمی۔
سے کا اضافہ بالکل کھل رہا ہے، اس کا کچھ کرنا چاہیے۔
 
Top