میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو

مین میخ تو نکالی جائیں گی میرے خیال میں۔ :)
آپ کا خیال کافی درست معلوم ہوتا ہے۔ ہم ذرا دیر کو اس پر ٹھٹکے ضرور تھے لیکن پھر سوچا کہ مین میخ میں مین تو برج حوت اور میخ برج جدی کو کہتے ہیں (ہندی میں) اور دنبہ مذکر ٹھہرا، علاوہ ازیں مین میخ نکالنا یعنی بات بات میں برج نکالنا جس میں برج مذکر ٹھہرا۔ بس یہی سب سوچ کر ہم مین میخ کو مذکر گردان گئے۔ :) :) :)
پیہم کا تعلق امید و یاس سے ہے نہ کہ جینے سے، یعنی کہ کبھی امید بندھ جاتی ہے اور کبھی مایوس ہو جاتا ہے آدمی۔
لا حول و لا قوہ! ہم اس شعر کا مفہوم ہی کچھ اور سمجھ رہے تھے۔ اس نالائقی کے عوض آپ ہمیں پہلی فرصت میں فون کر کے کوسنے دے سکتی ہیں۔ :) :) :)
 
نمرہ بٹیا، یہ سارے کے سارے زبردستی والے تبصرے ہیں کیونکہ آپ نے مجبور کیا ہے کہ کچھ مین میخ نکالے جائیں۔ :) :) :)

پیہم میں تسلسل سے زیادہ تواتر اور پہ در پہ کا مفہوم ملتا ہے اس لیے یہاں جینے کے ساتھ پیہم کا استعمال کچھ کھٹک رہا ہے۔ :) :) :)

ضرورت شعری اپنی جگہ، لیکن اس مقام پر "سے" کا اضافہ کچھ کھل رہا ہے۔ :) :) :)
یعنی آپ کو بھی اصلاحِ سخن والی ٹیم میں ڈالا جائے۔ :)
 

جان

محفلین
میں آرزو لکھوں کہ کہوں شان آرزو
اس سے کہیں بلند ہے وہ جان آرزو

پیہم امید و یاس میں جینا سکھا دیا
سر پر سدا رہے گا یہ احسان آرزو

ملنا محال تو نہیں ایسا پہ شرط ہے
بہر تلاش چاہیے ایقان آرزو

شاید نہ ہارتا کبھی رکھتا اگر وجود
میری خرد سے ہی مرا ایمان آرزو
عمدہ اشعار! داد قبول فرمائیے۔
 
Top