ابن سعید
خادم
آپ کا خیال کافی درست معلوم ہوتا ہے۔ ہم ذرا دیر کو اس پر ٹھٹکے ضرور تھے لیکن پھر سوچا کہ مین میخ میں مین تو برج حوت اور میخ برج جدی کو کہتے ہیں (ہندی میں) اور دنبہ مذکر ٹھہرا، علاوہ ازیں مین میخ نکالنا یعنی بات بات میں برج نکالنا جس میں برج مذکر ٹھہرا۔ بس یہی سب سوچ کر ہم مین میخ کو مذکر گردان گئے۔مین میخ تو نکالی جائیں گی میرے خیال میں۔
لا حول و لا قوہ! ہم اس شعر کا مفہوم ہی کچھ اور سمجھ رہے تھے۔ اس نالائقی کے عوض آپ ہمیں پہلی فرصت میں فون کر کے کوسنے دے سکتی ہیں۔پیہم کا تعلق امید و یاس سے ہے نہ کہ جینے سے، یعنی کہ کبھی امید بندھ جاتی ہے اور کبھی مایوس ہو جاتا ہے آدمی۔