امر شہزاد
محفلین
میں اس طرح ترے دل کے حصار سے نکلا
کہ جیسے کوئی ستارا مدار سے نکلا
ہزاروں غم ہوئے جاتے تھے منکشف مجھ پر
میں جب حریمِ غمِ انتظار سے نکلا
کسی نے طرزِ تغافل سے پھیر لیں آنکھیں
بہت اداس کوئی بزم یار سے نکلا
زمیں کے بخت میں اس نے اداسیاں لکھ دیں
جو ایک نالہ دلِ داغدار سے نکلا
اسیرِ حلقہء جاں ہی رہا عذابِ فراق
کہاں یہ درد بدن کے دیار سے نکلا
کہ جیسے کوئی ستارا مدار سے نکلا
ہزاروں غم ہوئے جاتے تھے منکشف مجھ پر
میں جب حریمِ غمِ انتظار سے نکلا
کسی نے طرزِ تغافل سے پھیر لیں آنکھیں
بہت اداس کوئی بزم یار سے نکلا
زمیں کے بخت میں اس نے اداسیاں لکھ دیں
جو ایک نالہ دلِ داغدار سے نکلا
اسیرِ حلقہء جاں ہی رہا عذابِ فراق
کہاں یہ درد بدن کے دیار سے نکلا