خرم شہزاد خرم
لائبریرین
میں انسان ہوں؟
انسان اشرف المخلوقات ہے۔ یہ بات مجھے اس وقت پتہ چل گی تھی جس وقت مجھے اشرف المخلوقات کا پتہ بھی نہیں تھا۔ اور جب مجھے اس لفظ کا مطلب پتہ چل گیا تو اپنے آپ پر فخر کرنے لگا کہ میں یعنی انسان ساری مخلوق میں بہتر مخلوق ہے ۔ میں بڑا ہوتا گیا عقل بھی آتی گی اور معاشرے کا تجربہ بھی ہوتا گیا بہت کچھ دیکھتابھی رہا اور پھر ایک مقام پر مجھے اس بات پر شک ہونے لگا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے ضمیر نے مجھ سے ہی سوال کر دیا ” میں انسان ہوں؟“ تو میں نے کہاں
”ہاں میں انسان ہوں“
تو ضمیر نے کہا ”تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم انسان ہو“
”کیو نکہ میں اشرف المخلوقات ہوں “
ضمیر نے کہا ”وہ کیا وجہ ہے جس وجہ سے تم خود کو اشرف المخلوقات کہتے ہو “
میں بولا ” کیوں کہ میں انسان ہوں“
” یہی تو میں پوچھ رہا ہوں تم انسان ہو“۔
”ہاں میں انسان ہوں“
”کیا انسان تم جیسے ہوتے ہیں“
” کیوں مجھ میں کیا ہے “
” میں نے تو سنا ہے انسان عقل و خرد کی وجہ سے اشرف المخلوقات کہلوایا ہے۔ اس کو اچھے اور بُرے کی تمیز ہے۔ یہ غلط اور صحیح کو پہچھانتا ہے یہ ظلم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا یہ خوبیاں تم میں ہیں“
میرے پاس ان باتوں کا جواب نہیںتھا میں خاموش ہو گیا لیکن ضمیر بولتا گیا
”میں نے سنا ہے جانور کو صرف کھانے کی فکر ہوتی ہے۔ کیا تم کو کھانے کی فکر نہیںہے کیا تم ہر وقت اپنے پیٹ کے لیے فکر مند نہیںرہتے۔ جانور اپنی بھوک یا ضرورت کے مطابق دوسرے جانوروں کو مار کر کھاتا ہے۔ تم تو اپنی حرص مٹانے کے لئے پوری دنیا ہڑپ کرنا چاہتے ہو؟ عقل تو صرف انسان کو دی گئی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی جانوروں والی حرکتیں کرتا ہے۔ کیا تم اپنے سے کمزور کا حق نہیںکھاتے ۔ کیا تم اپنے سے کمزور کو نیچا دکھانے کی کوشش نہیںکرتے ۔ کیا تم ظالم کے خلاف چپ نہیں رہتے ۔ انسان تو وہ تھے جنوں نے اپنے خدا کو پہچھان لیا تھا ۔ جو اپنے خدا کی عبادت کرتے تھے اور اس کے فرمان کے مطابق دوسروں کا خیال رکھتے تھے اور اللہ ان انہیں انسانوں میں سے حکمران بھی پیدا کے تھے جو اپنے جیسے انسانوں کی طرح تھے اور انسانوں کا خیال رکھتے تھے ۔ راتوں کو گشت کرتے تھے اور انصاف کرتے تھے۔
تم خود کو انسان کہتا ہوں جہاں چاہتے ہو وہاں جنگ شروع کر دیتے ہو جہاں چاہتے ہو قبصہ کر لیتے ہو انصاف کے بارئے میںتو تم کو علم ہی نہیںہے ہر جگہ جنگل کا قانون ہے۔ جہاں انصاف نہیںہوتا جہاں غریب کی مدد نہیں ہوتی ، جہاں بڑوں کی عزت نہیںہوتی، وہاں کون سے انسان بستے ہیں وہ تم کو انسان کہلوانے کا کوئی حق نہیں ۔“
ضمیر کی یہ باتیں میرے دل و دماغ کو کاٹتی رہی اور میں بے جان سا بیٹھا یہ باتیں سنتا رہا اور اپنے آپ پر شرمندہ بھی ہوتا رہااور خود سے بھی سوال کرنے لگا”کیا میں انسان ہوں“ تو مجھے اس کا کوئی جواب نا ملا
تحریر خرم شہزاد خرم