میں اور میرا ملک، جادوگر کے جال میں

سیما علی

لائبریرین
میں اور میرا ملک، جادوگر کے جال میں

کشور ناہید
07 جنوری ، 2023

یہ قصہ ہے یکم جنوری 2021ء کا وہ اچانک گھر میں آگئی۔ سر اور پائوں سے ننگی مگر حوصلے کے ساتھ بولی، میں آپ کاگھر سنبھالوں گی۔ لہجے اور گفتگو میں اعتماد تھا۔ میں نے بس شناختی کارڈ کا پوچھا اورگھر اس کے حوالے کردیا۔ وہ بہت باتونی اور میرے بیٹوں تک کو اس نے باتوں کے ذریعہ اپنا فیورٹ بنالیا۔ کبھی کبھی رات کو غائب ہوتی، میں ڈانٹ دیتی، معافی مانگ کر پھر سب کام کرتی۔ وہ جو بظاہر اعتماد والی نظرآرہی تھی۔ وہ چٹی اَن پڑھ تھی، ذرا بات کرنے کا موقع دو تو ایسے بولتی جیسے اس کے خاندان کے سامنے ہاتھی اور گھوڑے بندھے ہوتے تھے۔ بس ایک بات وہ سیکھ گئی تھی کہ جب میں پڑھ رہی ہوں یا لکھ رہی ہوں تو وہ مجھے ڈسٹرب نہیں کرتی تھی بلکہ ہلکی آواز میں دوسرے کمرے میں ٹی وی دیکھتی رہتی۔ اس کے دو بیٹے جوان تھے، جن سے دن میں کئی مرتبہ میرے سامنے اور میرے چلے جانے کے بعد ٹیلی فون پر مصروف رہتی۔ البتہ میرے سامنے گھر میں کام کرتی ہی دکھائی دیتی، شام کو سوتے وقت کبھی کبھی مجھ سے ٹانگوں پرمالش کرنے کی ضد کرتی ۔میں نے مطمئن ہو کر تھوڑے دن بعد، گھر کی چابی اُسے دیدی اعتبار چونکہ میری عادت کا حصہ تھا پھر میں پڑھنے میں بھول جاتی۔ اس دوران وہ میرا پانی کا گلاس چپکے سے آکے بھر جاتی، صبح میری ہدایت کے مطابق سات بجے ناشتہ اورکھانا بنانے آجاتی جب کبھی میں چابی واپس لینے کا کہتی بلکہ میری دوستیں کہتیں، اتنا اعتبار مناسب نہیں تومیں ہنسی میں اُڑا دیتی۔ میرے مہمانوں کی بھی بہت تمیز اور محبت سے مدارت کرتی، مجھے اُٹھنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑتی۔ میں اُسے پریزیڈنسی ، ہوٹل اور ہر ہوٹل اور ہر فلم پہ ساتھ لے کرجاتی تاکہ اُسے کبھی نوکر ہونے کا احساس نہ ہو۔

یوں دو سال ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ میں کراچی اور فیصل آباد گئی، حسب ِمطابق گھر کی چابی اس کے پاس تھی۔ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی چالاکی دکھاتی تھی۔ میں نظرانداز کر دیتی۔ مجھے فیصل آباد جانے کے دن کہا، میں ان چھٹیوں میں لاہور جا رہی ہوں۔ میں بہت سی جگہوں پر کانفرنس سے واپس لوٹی تو پتہ چلا اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ وہ اپنے کمر ے میں پمز سے پلستر چڑھوا کے آئی ہے۔ فوراً اس کے علاج اور پرانی نوکرانی کو واپس بلانے کے جھنجھٹ میں پڑ گئی۔

دوسری ماسی سے پہلے روز میں نے کہا،’’ پہلے الماریاں صاف کرو لحاف، کمبل اور رلّیاں سنبھالو‘‘۔ نئی نوکرانی نے کہا ’’وہاں تو صرف ایک دلائی پڑی ہے۔‘‘ میں پڑھتے سے اُٹھی، دیکھا وہ الماری جودلائیوں، رلّیوں سے بھری تھی وہاں صرف ایک دلائی تھی۔ چوکنا ہو کر کہا ’’ساری الماریاں کھولو، بس پھر کیا تھا کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ الیکٹرونکس کی بہت مہنگی اشیاء، ساری دنیا اور اپنے دیہات سے اکٹھی کی ہوئی مٹی کے ڈھوبرے تک اُسے اتنے پسند آئے کہ وہ سب غائب تھے۔ مطلوبہ خاتون کو میں نے آپریشن کیلئے اسپتال میں داخل کروایا تھا۔ اس سے کیسے پوچھوں، جواب مجھے معلوم تھا وہ قسمیں کھائے گی۔ ’’میں نے تو کچھ نہیں لیا۔‘‘پھر بھی اپنے دفتر کے ڈائریکٹر کوکہا اُسے ملائمت سے کہو کہ جو چیزیں ابھی فروخت نہیں کیں، وہ واپس کردو۔ اُس نے حسب ِتوقع وہی جواب دیا، بلڈنگ کے کیئرٹیکر سے پوچھا، اس کا سرکاری جواب تھا ’’ہم بلڈنگ کی حفاظت کیلئے ہیں ، گھروں میں کیا ہوتا ہے یہ ہماری ذمہ داری نہیں۔‘‘جی میں آیا، اسلام آباد کے آئی جی سے جوکہ خود شاعر ہے، شکایت کرتی ہوں، پھر میرے اندر سے جواب آیا، وہ بے چارہ کیا کرے گا۔ وہ سامان کو برآمد نہیں کراسکے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں دو راتیں اور تین دن گزار لئے۔ ایک رات یعنی گزشتہ رات مجھے خواب میں کسی نے کہا ’’غم بہت کر لیا، ہمت کرو تم پھر کما لوگی اور پھر نئی دنیا کی چیزیں لائوگی۔ بچے بھی تمہاری موت کے بعد باہر سے آئے ہوں گے ان چیزوں کو فالتو ہی سمجھتے۔ بھول جائو، صدقہ سمجھو،‘‘ میں ہڑبڑا کے اُٹھی اور میری زبان پہ نامعلوم کس کا شعر ہے جو میں دہرا رہی تھی:

رہا کھٹکا نہ چوری کادعا دیتا ہوں رہزن کو

میں نے یہ شعر پڑھتے پڑھتے مسکرا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر سونے کی کوشش، اذانوں تک جاری رہی۔

یہ احوال لکھنا اس لئے ضروری تھا کہ ایک طرف ہم سب غریبوں کی مدد اور نوکروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دوسری طرف میری نوکرانی دو سال میں جونک کی طرح میرا گھر خالی کرتی رہی۔ مجھے یہاں بار بار شہباز شریف کی ہر روز کی تقریر یاد آگئی جس میں وہ ایک طرف عمران کی چوریوں کا حساب دے رہے ہیں اور اب وہ بھی عمران کی طرح کہہ رہے ہیں کہ ’’حلف لینے سے پہلے مجھے معیشت کی اتنی بری حالت کا علم ہی نہیں تھا۔‘‘ گھر کا چارج ہو کہ ملک، نظر تو ہر چیز پر رکھنی چاہئے۔ یہ ہمارا بے جا اعتماد، ملک اور گھر دونوں کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے۔ یہ قصہ ختم یکم جنوری 2023 کو ہوا۔ اب تو عمران اور شہباز، اپنے نعرے اور تقریروں کو بدل ڈالو، میری نوکرانی کی تو صرف ٹانگیں ٹوٹیں، میری تو ملک کی طرح کمر ٹوٹ گئی، بے نظیر نے بھی دو دفعہ دھوکے میں آکر حکومت پکڑی تھی۔ آپ کو لانے والے وہی تھے جو عمران خان کو لائے تھے۔آپ کے سر پر یہ کانٹوں بھرا تاج، تقریریں کرنے کیلئے نہیں، اس وقت 70سال بعد، فوج اپنا دامن بچا رہی ہے۔ آپ قوم کوسچ مچ اعتماد میں لیں۔

یہ قوم میری طرح کی جذباتی ہے۔ ہر روز دھماکے، ہر روز مہنگائی، ہر روز تبریٰ، یہ ذہن میں رکھیں میرے وزیراعظم کہ اس وقت 160 فیکٹریاں بند، 50 لاکھ لوگ ملازمت سے فارغ، آپ بتائیں آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ اب نہ کھانا ہے اور نہ آٹا، میرے دفتر میں خواتین اپنی کرافٹ اما نتاً رکھواتی ہیں۔ وہ سب مطمئن ہیں میرے گھر پر یہ ادبار کیوں نازل ہوا؟ کوئی تو اُلجھن دُور کرے۔
 
آخری تدوین:
میں اور میرا ملک، جادوگر کے جال میں

کشور ناہید
07 جنوری ، 2023

یہ قصہ ہے یکم جنوری 2021ء کا وہ اچانک گھر میں آگئی۔ سر اور پائوں سے ننگی مگر حوصلے کے ساتھ بولی، میں آپ کاگھر سنبھالوں گی۔ لہجے اور گفتگو میں اعتماد تھا۔ میں نے بس شناختی کارڈ کا پوچھا اورگھر اس کے حوالے کردیا۔ وہ بہت باتونی اور میرے بیٹوں تک کو اس نے باتوں کے ذریعہ اپنا فیورٹ بنالیا۔ کبھی کبھی رات کو غائب ہوتی، میں ڈانٹ دیتی، معافی مانگ کر پھر سب کام کرتی۔ وہ جو بظاہر اعتماد والی نظرآرہی تھی۔ وہ چٹی اَن پڑھ تھی، ذرا بات کرنے کا موقع دو تو ایسے بولتی جیسے اس کے خاندان کے سامنے ہاتھی اور گھوڑے بندھے ہوتے تھے۔ بس ایک بات وہ سیکھ گئی تھی کہ جب میں پڑھ رہی ہوں یا لکھ رہی ہوں تو وہ مجھے ڈسٹرب نہیں کرتی تھی بلکہ ہلکی آواز میں دوسرے کمرے میں ٹی وی دیکھتی رہتی۔ اس کے دو بیٹے جوان تھے، جن سے دن میں کئی مرتبہ میرے سامنے اور میرے چلے جانے کے بعد ٹیلی فون پر مصروف رہتی۔ البتہ میرے سامنے گھر میں کام کرتی ہی دکھائی دیتی، شام کو سوتے وقت کبھی کبھی مجھ سے ٹانگوں پرمالش کرنے کی ضد کرتی ۔میں نے مطمئن ہو کر تھوڑے دن بعد، گھر کی چابی اُسے دیدی اعتبار چونکہ میری عادت کا حصہ تھا پھر میں پڑھنے میں بھول جاتی۔ اس دوران وہ میرا پانی کا گلاس چپکے سے آکے بھر جاتی، صبح میری ہدایت کے مطابق سات بجے ناشتہ اورکھانا بنانے آجاتی جب کبھی میں چابی واپس لینے کا کہتی بلکہ میری دوستیں کہتیں، اتنا اعتبار مناسب نہیں تومیں ہنسی میں اُڑا دیتی۔ میرے مہمانوں کی بھی بہت تمیز اور محبت سے مدارت کرتی، مجھے اُٹھنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑتی۔ میں اُسے پریزیڈنسی ، ہوٹل اور ہر ہوٹل اور ہر فلم پہ ساتھ لے کرجاتی تاکہ اُسے کبھی نوکر ہونے کا احساس نہ ہو۔

یوں دو سال ہنستے کھیلتے گزر گئے۔ میں کراچی اور فیصل آباد گئی، حسب ِمطابق گھر کی چابی اس کے پاس تھی۔ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی چالاکی دکھاتی تھی۔ میں نظرانداز کر دیتی۔ مجھے فیصل آباد جانے کے دن کہا، میں ان چھٹیوں میں لاہور جا رہی ہوں۔ میں بہت سی جگہوں پر کانفرنس سے واپس لوٹی تو پتہ چلا اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔ وہ اپنے کمر ے میں پمز سے پلستر چڑھوا کے آئی ہے۔ فوراً اس کے علاج اور پرانی نوکرانی کو واپس بلانے کے جھنجھٹ میں پڑ گئی۔

دوسری ماسی سے پہلے روز میں نے کہا،’’ پہلے الماریاں صاف کرو لحاف، کمبل اور رلّیاں سنبھالو‘‘۔ نئی نوکرانی نے کہا ’’وہاں تو صرف ایک دلائی پڑی ہے۔‘‘ میں پڑھتے سے اُٹھی، دیکھا وہ الماری جودلائیوں، رلّیوں سے بھری تھی وہاں صرف ایک دلائی تھی۔ چوکنا ہو کر کہا ’’ساری الماریاں کھولو، بس پھر کیا تھا کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ الیکٹرونکس کی بہت مہنگی اشیاء، ساری دنیا اور اپنے دیہات سے اکٹھی کی ہوئی مٹی کے ڈھوبرے تک اُسے اتنے پسند آئے کہ وہ سب غائب تھے۔ مطلوبہ خاتون کو میں نے آپریشن کیلئے اسپتال میں داخل کروایا تھا۔ اس سے کیسے پوچھوں، جواب مجھے معلوم تھا وہ قسمیں کھائے گی۔ ’’میں نے تو کچھ نہیں لیا۔‘‘پھر بھی اپنے دفتر کے ڈائریکٹر کوکہا اُسے ملائمت سے کہو کہ جو چیزیں ابھی فروخت نہیں کیں، وہ واپس کردو۔ اُس نے حسب ِتوقع وہی جواب دیا، بلڈنگ کے کیئرٹیکر سے پوچھا، اس کا سرکاری جواب تھا ’’ہم بلڈنگ کی حفاظت کیلئے ہیں ، گھروں میں کیا ہوتا ہے یہ ہماری ذمہ داری نہیں۔‘‘جی میں آیا، اسلام آباد کے آئی جی سے جوکہ خود شاعر ہے، شکایت کرتی ہوں، پھر میرے اندر سے جواب آیا، وہ بے چارہ کیا کرے گا۔ وہ سامان کو برآمد نہیں کراسکے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں دو راتیں اور تین دن گزار لئے۔ ایک رات یعنی گزشتہ رات مجھے خواب میں کسی نے کہا ’’غم بہت کر لیا، ہمت کرو تم پھر کما لوگی اور پھر نئی دنیا کی چیزیں لائوگی۔ بچے بھی تمہاری موت کے بعد باہر سے آئے ہوں گے ان چیزوں کو فالتو ہی سمجھتے۔ بھول جائو، صدقہ سمجھو،‘‘ میں ہڑبڑا کے اُٹھی اور میری زبان پہ نامعلوم کس کا شعر ہے جو میں دہرا رہی تھی:

رہا کھٹکا نہ چوری کادعا دیتا ہوں رہزن کو

میں نے یہ شعر پڑھتے پڑھتے مسکرا کر اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر سونے کی کوشش، اذانوں تک جاری رہی۔

یہ احوال لکھنا اس لئے ضروری تھا کہ ایک طرف ہم سب غریبوں کی مدد اور نوکروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دوسری طرف میری نوکرانی دو سال میں جونک کی طرح میرا گھر خالی کرتی رہی۔ مجھے یہاں بار بار شہباز شریف کی ہر روز کی تقریر یاد آگئی جس میں وہ ایک طرف عمران کی چوریوں کا حساب دے رہے ہیں اور اب وہ بھی عمران کی طرح کہہ رہے ہیں کہ ’’حلف لینے سے پہلے مجھے معیشت کی اتنی بری حالت کا علم ہی نہیں تھا۔‘‘ گھر کا چارج ہو کہ ملک، نظر تو ہر چیز پر رکھنی چاہئے۔ یہ ہمارا بے جا اعتماد، ملک اور گھر دونوں کو دن میں تارے دکھا دیتا ہے۔ یہ قصہ ختم یکم جنوری 2023 کو ہوا۔ اب تو عمران اور شہباز، اپنے نعرے اور تقریروں کو بدل ڈالو، میری نوکرانی کی تو صرف ٹانگیں ٹوٹیں، میری تو ملک کی طرح کمر ٹوٹ گئی، بے نظیر نے بھی دو دفعہ دھوکے میں آکر حکومت پکڑی تھی۔ آپ کو لانے والے وہی تھے جو عمران خان کو لائے تھے۔آپ کے سر پر یہ کانٹوں بھرا تاج، تقریریں کرنے کیلئے نہیں، اس وقت 70سال بعد، فوج اپنا دامن بچا رہی ہے۔ آپ قوم کوسچ مچ اعتماد میں لیں۔

یہ قوم میری طرح کی جذباتی ہے۔ ہر روز دھماکے، ہر روز مہنگائی، ہر روز تبریٰ، یہ ذہن میں رکھیں میرے وزیراعظم کہ اس وقت 160 فیکٹریاں بند، 50 لاکھ لوگ ملازمت سے فارغ، آپ بتائیں آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ اب نہ کھانا ہے اور نہ آٹا، میرے دفتر میں خواتین اپنی کرافٹ اما نتاً رکھواتی ہیں۔ وہ سب مطمئن ہیں میرے گھر پر یہ ادبار کیوں نازل ہوا؟ کوئی تو اُلجھن دُور کرے۔
ساری زمداری خود پر نہیں ڈالنی چاھئیے نوکروں پر کسی کو انچارج بنادیں بس آپ کا کام وہ کریگا اور خوش بھی ہوجائیگا کہ میں انچارج ہوں ساری تفصیل آپ اُس سے لیں ۔ کسی کو بھی آرڈر دینا ہوتو اُس انچارج کے تھرو آرڈر پاس کریں اِس سے سارے نوکروں سے آپ کو الجھنا بھی نہیں پڑیگا اور آپ کا کام بھی آسان ہوجائیگا رہی بات سیکورٹی کی تو جہاں دس ملازموں پر نظر رکھنے سے ایک بندے پر نظر رکھنا زیادہ آسان ہے ۔
 

راشد احمد

محفلین
قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک جادوگروں کے نرغے میں ہے اور یہ جادوگر قائداعظم، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح کو کھاگئے اور آدھا ملک توڑگئے
 

فرخ منظور

لائبریرین
پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہے اس لیے اس میں آئے روز نت نئے تجربے ہوتے رہتے ہیں۔ دھماکوں کے متعلق عبیر ابوذری نے فرمایا تھا۔
ہر روز کسی شہر میں ہوتے ہیں دھماکے
رہتی ہے مرے دیس میں شبرات مسلسل
 
Top