محمد علم اللہ
محفلین
نوٹ :نیٹ گردی کے دوران روزنامہ آج کے ویب سائٹ میں مجھے یہ مضمون ملا جسے لکھا ہے ناصر علی سید نے ۔سچ مچ مضمون پڑھ کر میں اپنے آنسووں کو ضبط نہیں کر سکا ۔ پتہ نہیں کیوں آج امی بہت یاد ۔ مجھے بہت اچھا لگا ۔اس لئے محفل میں شیر کر رہا ہوں ۔
ناصر علی سید
لے کو مدھم نہ کرو‘رقص کرو
اس زمانے میں کہاں باردگر جائیں گے
بادل کو کیا خبرہے کہ بارش کی چاہ میں
ہم بھری دنیا میں تنہا ہوگئے
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ مری آنکھیں
کچھ دنوں سے عجیب سی کیفیت کا شکارہوں۔ لکھنے بیٹھتا ہوں تو خود کومجتمع کرنامحال ہوجاتاہے۔ پڑھنے کی کوشش کرتاہوں تو کوئی حرف کوئی لفظ دوستی نہیں کرتا۔ اطراف سے ہندکوپشتواردو کی کتابیں احباب کی محبت سے ملتی ہیں۔ میز پر نئی کتب کی جگہ نہیں بچتی۔ پڑھے بغیر میز سے ہٹانے کی نہ عادت ہے نہ مجال سرسری سی نظر ہر کتاب پر تو کتاب ملتے ہی ڈالتا ہوں مگربات آگے نہیں بڑھتی۔ اورنہ پڑھوں تو لکھ نہیں پاتا۔ بہت سی اداسی حاصل کرنے کیلئے موسیقی کا سہارا ڈھونڈتا ہوں۔ مکیش اور طلعت محمود سے ہوتا ہواسہگل اور سی ایچ آتما تک جاتاہوں اور وہاں سے ولایت خان اور بسم اللہ خان کوچھوتاہوا بڑے غلام علی تک جاپہنچتا ہوں مگر اندر کی کیفیت میں ذرا سی تبدیلی نہیں آتی وہ جو صبح دم بلکہ صبح کا ذب سے صبح صادق تک کی تقویت دینے والی گھڑیاں از خود رفتگی کی کیفیت میں گذرتی ہیں۔ مالک کا کرم ہے اس میں(کم ازکم میری طرف سے) کوئی کمی نہیں آئی۔
قبولیت کے ان لمحوں میں نم آلود آنکھوں کے ساتھ اسی کیفیت سے نکلنے کی دعائیں بھی ہونٹوں پر لرزتی ہیں۔ شایدانہی کی بدولت کچھ روٹین کے لکھنے پڑھنے کے کام ہورہے ہیں۔ چند الٹے سیدھے لفظ بھی کاغذ پر اترنے لگے ہیں اور پھر یہ بھی ہوا کہ احسن سلیم کا ادبی جریدہ اجرا بھی ڈاک سے ملا۔ مجھے اس پرچے کاانتظار رہتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تشنگان علم وادب کی پیاس بجھانے کے لئے باقی جرائد اگردریا کی طرح ہیں تواجرا کا شمار گنتی کے ان ایک دوجریدوں میں ہوتا ہے جنہیں اکابرین ادب سمندر کہتے ہیں۔ اجرا کو بھی میں نے یہاں وہاں سے پڑھنا بلکہ چکھنا شروع کردیا کہ اچانک ایک صفحے پر نظریں رک گئیں۔ اور جیسے اس سطر نے روک لیا۔’’ بے وقوف لڑکے! یہ تم نے کیا پاگلوں جیسی حرکت کی ہے۔ اب تم بیمار ہوجائے گا‘‘۔ میں وہ پانی پی کر کیسے بیمارہوسکتا ہوں۔ جس میں میری ماں کے پاؤں دھلے ہیں۔ ماںکے پیروں تلے تو جنت ہوتی ہے۔ان کی والدہ ان کی محبت اور عقیدت کی یہ شدت دیکھ کر فرط جذبات سے رونے لگی۔ انہوں نے بیٹے کو ایک لمحہ پہلے ڈانٹا تھا مگر دوسرے ہی لمحے سینے سے لگالیا۔‘‘ یہ واقعہ تواستاد بڑے غلام علی خان کے بچپن کا ہے مگر مجھے ایسے کتنے ہی واقعات یادآئے جب مجھے ڈانٹ پڑی تھی اوردوسرے ہی لمحے سینے سے لگایاگیاتھا۔
وہ دن جب بھائی کی سائیکل میں باہر لے گیاتھا اوراس کا چین ٹوٹ گیا تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا اور اپنی والدہ سے کہا۔’’ کس سے پوچھ کر تم سائیکل لے گئے تھے باہر‘‘ انہوں نے ڈانٹا تو میںروپڑا انہوں نے بے چین ہوکر گلے لگالیا اور چمکارتے ہوئے کہا۔ بغیر اجازت نہیں لے جانا چاہئے تھا نامجھے معلوم ہے تم پھر بغیراجازت کسی کی چیز نہیں لوگے نا۔ ہے نا۔ میراشہزادہ آؤ تمہیں مربہ دوں۔ پھر گڑ کے شربت بلکہ شیرہ میں بنے ہوئے نارنج کے مربہ کی پھانک اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلائی۔ اب سوچتا ہوں کہ ایسے ہی کتنی بار ہوا اوران کی بتائی ہوئی باتیں میری شخصیت میں شامل ہوگئیں۔ بہت سے احباب کو میں بتاتا رہتا ہوں کہ کس طرح بچپن میں ان سے سنی اورسیکھی ہوئی باتیں میرے ساتھ رہتی ہیں۔
خصوصاً انکی گفتگو میں (پشتو زبان کے) جو محاورے اورضرب المثال شامل ہوتے وہ اب بھی میرے دل ودماغ میں تازہ ہیں چھوٹی چھوٹی باتیں جو میں احباب اور خصوصاً سٹوڈنٹس کے ساتھ شیئر کرتارہتا ہوں وہ میں نے کتاب سے نہیں اپنی والدہ سے سیکھی ہیں۔ حالانکہ وہ کبھی سکول نہیں گئی تھیں اورقرآن پاک کے علاوہ انہیں لکھنا پڑھنا بھی نہیںآتا تھا مگر ان کی تربیت نے ہماری فیملی کو اڑوس پڑوس سے مختلف بنادیاتھا اوراسی لئے میں نے اپنی پہلی کتاب’’زندگی‘‘ کے انتساب میں لکھا ہے’’آجی کے نام‘‘۔ جس نے اکوڑہ خٹک کے دیہاتی ماحول میںمیری تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ پشاور آکر مجھے کبھی کمتری یا محرومی کا احساس نہیں ہوا’’یہ‘‘ ’’آجی‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی خوب ہے۔ میری والدہ کو شروع ہی سے فیملی کے بچے خالہ جی کہتے تھے اور جب میرے بڑے بھائی سید پیر محمد شاہ نے ہوش سنبھالا تو دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی خالہ جی کہنے کی کوشش کرتے مگرمحض آجی ہی کہہ پاتے اور پھر یہی نام پڑگیا۔ میری کتابیں بہت سے دوستوں کی طرح شیلفوں میں سامنے ہی پڑی ہوتی ہیں۔ کچھ احباب(سب نہیں) کوئی کتاب نکال کر اسے الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔
شاید کوئی دو ایک صفحات پڑھ بھی لیتا ہے مگرحرام ہو جو اسے واپس رکھتاہو۔ مجھے نہیں یادکہ میں نے کسی کے ہاں بھی جاکرکتاب ازخود اٹھائی ہو یا شیلف سے نکالی ہو۔ صرف ایک بارجب ہم رسالہ کے لئے نام ڈھونڈ رہے تھے اور شاید لغت سے فال نکالنے کی بات کسی نے کی اور میں نے فوراً اٹھ کر حسام حر کے بک شیلف سے لغت بغیر پوچھے نکال لی تھی اورآج تک خود کومعاف نہیں کر سکا حالانکہ بے تکلف دوستوں میں ایسی باتوں کاکوئی سوچتا بھی نہیں مگربچپن میں والدہ کی نصیحت کا کیا کروں۔ جس کاسحر ٹوٹتا ہی نہیں۔ کسی کی چیز کو بغیراجازت یا بن بتائے نہیں چھوتا۔
اپنے آگے سے کھانا کھانا۔ اپنا چمچ کسی سالن ، کسی دہی کسی چٹنی کے باؤل میں نہیں ڈالنا۔ گلاس میں( کٹورے میں) پانی ضرورت کے مطابق ڈالنا اور پوراپینا کہ دوسرے کوپانی گرانے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔ کھانے کی مقدار کومدنظر رکھنا کہ کہیں آپ کی وجہ سے دوسروں کوکم کھانا نہ ملے یا میزبان کو شرمندگی نہ اٹھاناپڑے۔ بظاہر یہ بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر محفل میں ان پر عمل نہ کرنے والا فوراً چیک ہوجاتا ہے۔ شکریہ احسن سلیم اور شکریہ ایک اہم مضمون کی تلخیص کے لئے جاوید اختر بھٹی کا جن کی وجہ سے بہت دنوں بعدمیں نے اپنی والدہ سے بھرپور ملاقات کی۔ وہی والدہ جن کے بارے میں کہا ہے
میں اپنی ماؤں کی دعاؤں کو اوڑھے رہتا ہوں
ہمیشہ سر پر مرے اس کا ہاتھ ہوتا ہے
عجیب میٹھی سی چھاؤں میں دن گزرتے ہیں
جہاں بھی جاؤں مرا گاؤں ساتھ ہوتاہے
ماخوزاز:http://www.dailyaaj.com.pk/urdu/archives/102651
ناصر علی سید
لے کو مدھم نہ کرو‘رقص کرو
اس زمانے میں کہاں باردگر جائیں گے
بادل کو کیا خبرہے کہ بارش کی چاہ میں
ہم بھری دنیا میں تنہا ہوگئے
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ مری آنکھیں
کچھ دنوں سے عجیب سی کیفیت کا شکارہوں۔ لکھنے بیٹھتا ہوں تو خود کومجتمع کرنامحال ہوجاتاہے۔ پڑھنے کی کوشش کرتاہوں تو کوئی حرف کوئی لفظ دوستی نہیں کرتا۔ اطراف سے ہندکوپشتواردو کی کتابیں احباب کی محبت سے ملتی ہیں۔ میز پر نئی کتب کی جگہ نہیں بچتی۔ پڑھے بغیر میز سے ہٹانے کی نہ عادت ہے نہ مجال سرسری سی نظر ہر کتاب پر تو کتاب ملتے ہی ڈالتا ہوں مگربات آگے نہیں بڑھتی۔ اورنہ پڑھوں تو لکھ نہیں پاتا۔ بہت سی اداسی حاصل کرنے کیلئے موسیقی کا سہارا ڈھونڈتا ہوں۔ مکیش اور طلعت محمود سے ہوتا ہواسہگل اور سی ایچ آتما تک جاتاہوں اور وہاں سے ولایت خان اور بسم اللہ خان کوچھوتاہوا بڑے غلام علی تک جاپہنچتا ہوں مگر اندر کی کیفیت میں ذرا سی تبدیلی نہیں آتی وہ جو صبح دم بلکہ صبح کا ذب سے صبح صادق تک کی تقویت دینے والی گھڑیاں از خود رفتگی کی کیفیت میں گذرتی ہیں۔ مالک کا کرم ہے اس میں(کم ازکم میری طرف سے) کوئی کمی نہیں آئی۔
قبولیت کے ان لمحوں میں نم آلود آنکھوں کے ساتھ اسی کیفیت سے نکلنے کی دعائیں بھی ہونٹوں پر لرزتی ہیں۔ شایدانہی کی بدولت کچھ روٹین کے لکھنے پڑھنے کے کام ہورہے ہیں۔ چند الٹے سیدھے لفظ بھی کاغذ پر اترنے لگے ہیں اور پھر یہ بھی ہوا کہ احسن سلیم کا ادبی جریدہ اجرا بھی ڈاک سے ملا۔ مجھے اس پرچے کاانتظار رہتا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تشنگان علم وادب کی پیاس بجھانے کے لئے باقی جرائد اگردریا کی طرح ہیں تواجرا کا شمار گنتی کے ان ایک دوجریدوں میں ہوتا ہے جنہیں اکابرین ادب سمندر کہتے ہیں۔ اجرا کو بھی میں نے یہاں وہاں سے پڑھنا بلکہ چکھنا شروع کردیا کہ اچانک ایک صفحے پر نظریں رک گئیں۔ اور جیسے اس سطر نے روک لیا۔’’ بے وقوف لڑکے! یہ تم نے کیا پاگلوں جیسی حرکت کی ہے۔ اب تم بیمار ہوجائے گا‘‘۔ میں وہ پانی پی کر کیسے بیمارہوسکتا ہوں۔ جس میں میری ماں کے پاؤں دھلے ہیں۔ ماںکے پیروں تلے تو جنت ہوتی ہے۔ان کی والدہ ان کی محبت اور عقیدت کی یہ شدت دیکھ کر فرط جذبات سے رونے لگی۔ انہوں نے بیٹے کو ایک لمحہ پہلے ڈانٹا تھا مگر دوسرے ہی لمحے سینے سے لگالیا۔‘‘ یہ واقعہ تواستاد بڑے غلام علی خان کے بچپن کا ہے مگر مجھے ایسے کتنے ہی واقعات یادآئے جب مجھے ڈانٹ پڑی تھی اوردوسرے ہی لمحے سینے سے لگایاگیاتھا۔
وہ دن جب بھائی کی سائیکل میں باہر لے گیاتھا اوراس کا چین ٹوٹ گیا تھا۔ میں ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا اور اپنی والدہ سے کہا۔’’ کس سے پوچھ کر تم سائیکل لے گئے تھے باہر‘‘ انہوں نے ڈانٹا تو میںروپڑا انہوں نے بے چین ہوکر گلے لگالیا اور چمکارتے ہوئے کہا۔ بغیر اجازت نہیں لے جانا چاہئے تھا نامجھے معلوم ہے تم پھر بغیراجازت کسی کی چیز نہیں لوگے نا۔ ہے نا۔ میراشہزادہ آؤ تمہیں مربہ دوں۔ پھر گڑ کے شربت بلکہ شیرہ میں بنے ہوئے نارنج کے مربہ کی پھانک اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلائی۔ اب سوچتا ہوں کہ ایسے ہی کتنی بار ہوا اوران کی بتائی ہوئی باتیں میری شخصیت میں شامل ہوگئیں۔ بہت سے احباب کو میں بتاتا رہتا ہوں کہ کس طرح بچپن میں ان سے سنی اورسیکھی ہوئی باتیں میرے ساتھ رہتی ہیں۔
خصوصاً انکی گفتگو میں (پشتو زبان کے) جو محاورے اورضرب المثال شامل ہوتے وہ اب بھی میرے دل ودماغ میں تازہ ہیں چھوٹی چھوٹی باتیں جو میں احباب اور خصوصاً سٹوڈنٹس کے ساتھ شیئر کرتارہتا ہوں وہ میں نے کتاب سے نہیں اپنی والدہ سے سیکھی ہیں۔ حالانکہ وہ کبھی سکول نہیں گئی تھیں اورقرآن پاک کے علاوہ انہیں لکھنا پڑھنا بھی نہیںآتا تھا مگر ان کی تربیت نے ہماری فیملی کو اڑوس پڑوس سے مختلف بنادیاتھا اوراسی لئے میں نے اپنی پہلی کتاب’’زندگی‘‘ کے انتساب میں لکھا ہے’’آجی کے نام‘‘۔ جس نے اکوڑہ خٹک کے دیہاتی ماحول میںمیری تربیت کچھ اس طرح سے کی کہ پشاور آکر مجھے کبھی کمتری یا محرومی کا احساس نہیں ہوا’’یہ‘‘ ’’آجی‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی خوب ہے۔ میری والدہ کو شروع ہی سے فیملی کے بچے خالہ جی کہتے تھے اور جب میرے بڑے بھائی سید پیر محمد شاہ نے ہوش سنبھالا تو دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی خالہ جی کہنے کی کوشش کرتے مگرمحض آجی ہی کہہ پاتے اور پھر یہی نام پڑگیا۔ میری کتابیں بہت سے دوستوں کی طرح شیلفوں میں سامنے ہی پڑی ہوتی ہیں۔ کچھ احباب(سب نہیں) کوئی کتاب نکال کر اسے الٹتا پلٹتا رہتا ہے۔
شاید کوئی دو ایک صفحات پڑھ بھی لیتا ہے مگرحرام ہو جو اسے واپس رکھتاہو۔ مجھے نہیں یادکہ میں نے کسی کے ہاں بھی جاکرکتاب ازخود اٹھائی ہو یا شیلف سے نکالی ہو۔ صرف ایک بارجب ہم رسالہ کے لئے نام ڈھونڈ رہے تھے اور شاید لغت سے فال نکالنے کی بات کسی نے کی اور میں نے فوراً اٹھ کر حسام حر کے بک شیلف سے لغت بغیر پوچھے نکال لی تھی اورآج تک خود کومعاف نہیں کر سکا حالانکہ بے تکلف دوستوں میں ایسی باتوں کاکوئی سوچتا بھی نہیں مگربچپن میں والدہ کی نصیحت کا کیا کروں۔ جس کاسحر ٹوٹتا ہی نہیں۔ کسی کی چیز کو بغیراجازت یا بن بتائے نہیں چھوتا۔
اپنے آگے سے کھانا کھانا۔ اپنا چمچ کسی سالن ، کسی دہی کسی چٹنی کے باؤل میں نہیں ڈالنا۔ گلاس میں( کٹورے میں) پانی ضرورت کے مطابق ڈالنا اور پوراپینا کہ دوسرے کوپانی گرانے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔ کھانے کی مقدار کومدنظر رکھنا کہ کہیں آپ کی وجہ سے دوسروں کوکم کھانا نہ ملے یا میزبان کو شرمندگی نہ اٹھاناپڑے۔ بظاہر یہ بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر محفل میں ان پر عمل نہ کرنے والا فوراً چیک ہوجاتا ہے۔ شکریہ احسن سلیم اور شکریہ ایک اہم مضمون کی تلخیص کے لئے جاوید اختر بھٹی کا جن کی وجہ سے بہت دنوں بعدمیں نے اپنی والدہ سے بھرپور ملاقات کی۔ وہی والدہ جن کے بارے میں کہا ہے
میں اپنی ماؤں کی دعاؤں کو اوڑھے رہتا ہوں
ہمیشہ سر پر مرے اس کا ہاتھ ہوتا ہے
عجیب میٹھی سی چھاؤں میں دن گزرتے ہیں
جہاں بھی جاؤں مرا گاؤں ساتھ ہوتاہے
ماخوزاز:http://www.dailyaaj.com.pk/urdu/archives/102651