بلال بھائی! اس قسم کی الجھن اور پریشانی کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم جیسے عام مسلمان اسلام کو فلاں، فلاں اور فلاں کے ”حوالہ“ سے جاننا چاہتے ہیں۔ کبھی ہم گوہر شاہی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں، کبھی، علامہ طاہر القادری کے مرید بن جاتے ہیں تو کبھی غامدی تو کبھی زید حامد وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ اسلام کو جاننے مسلمان بننے کے لئے ان جیسے ”مشکوک“ لوگوں کے پیچھے جانے کی کیا ضرورت ہے، انہیں پرھنے یا سننے یا انہیں غلط یا صحیح گرداننے کی کیا ضرورت ہے۔
ہمارا اسلام تو صرف دو کتابوں میں موجود ہے ایک قرآن دوسرے حدیث۔ حدیث میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم ہی مکمل پڑھ لیں تو باقی ذخیرہ احادیث کو پڑھنے اور ضعیف و موضوع احادیث کی پر خطر وادی میں اترنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر ایک عام پڑھا لکھا مسلمان الحمد سے والناس تک قرآن مجید ڈیئریکٹ عربی میں یا کسی بھی ترجمہ کی مدد سے پڑھ لے اور پڑھتا رہے اور صحیحین سے تمام کتب کی احادیث کوپڑھ لے تو اسے کوئی قادری، کوئی گامدی، کوئی زید حامد کبھی گمراہ نہیں کرسکتا۔ ایک بات اور یاد رکھئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی بھی انسان کو اپنا رول ماڈل نہ بنائیں۔ ہیرو نہ بنائیں۔ ہم جب بھی ایسا کرتے ہیں، ٹھوکر کھاتے ہیں۔ دینی اعتبار سے کوئی فرد ہمیں (اپنی ذاتی جہالت کے سبب) کتنے ہی بلند مقام پر کیوں نہ دکھائی دے، کبھی بھی اسے رول ماڈل اور اپنا ہیرو نہ بنائیں، دینی معاملات میں۔ دین اسلام میں ہمارے ہیرو صرف اور صرٍف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ہمیں اپنے مسائل کے لئے قرآن و حدیث کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی سیرت کو دیکھنا چاہئے۔ آج کل کے مختلف فرقوں، مسالک کے رہنماؤں کو نہیں جو ہمیں شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی وغیرہ وغیرہ تو بنا سکتے ہیں، سچا مسلمان نہیں بنا سکتے۔ کہ اسلام میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ کی رسی (قرآن اور حدیث) کو مضبوطی سے تھام لو اور باہم تفرقہ بازی نہ کرو (آل عمران-103)