میں بسمل اک اور بے وزن غزل لیے حاضر ہوں توجہ فرمائیں!!!!

ضرور غور کیا جناب. تنقید بہر حال میرا زمرہ نہیں تو میں کرتا بھی نہیں . علاوہ شاعری کے میں انتہائی سہل انداز گفتگو پسند کرتا ہوں. جس مقصد کے لئے یہاں آیا ہوں وہ بخوبی پورا ہوا جارہا ہے.
جناب آپ کی نجی چیز میں دخالت کی معذرت لیکن کیا آپ اپنا مقصد بتانا پسند فرمائیں گے؟
 
مقصد تو آپ جان جائینگے جلد ہی. در اصل میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ شعراء کا ذوق دیکھوں. اور انکی تک بندیوں کا اپنے اشعار سے موازنہ کروں .
 
مقصد تو آپ جان جائینگے جلد ہی. در اصل میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ شعراء کا ذوق دیکھوں. اور انکی تک بندیوں کا اپنے اشعار سے موازنہ کروں .
کیا تندرست مقصد ہے آپ کا۔۔۔ ویسے کچھ حاصل بھی آیا یا 2 اور 2 = 0 ہو گئے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
آپ نے غور نہیں فرمایا میں نے تطبیق "راز گنج پنہان" استعمال کی ہے اور مجھے امید تھی کے یہاں احباب پہلی تنقید میرے فارسی کے کثیر از حد استعمال پر ہی کریں گے۔

ہم جیسوں کے لئے فارسی کی کلاس ہی کھول لیں۔
نواش ہو گی۔
 
کامران آپ نے مجھے پٹوانے کی ٹھان لی ہے لگتا ہے. ارے حضرت حذف تو وجہ کی بنا پے کرے ہیں لکھتے ہوئے اچانک اعجاز صاحب اور شاکر بھائی یاد آئے تو مارے ڈر کے ان مصرعوں کو نکال باہر کردیا .

پھر بھی دیکھنا چاھونگا اگر مناسب لگے تو پوسٹ کیجئے.
 
کامران اس غزل کے قریب آٹھ مصرعے ہیں جو کہ برجستہ تھے۔ جن میں اک شعر یوں تھا:

دل مرا اب تختہ مشقِ اک بت خیّاط ہے
یوں طلے دانی میں انکی ہیں انگشتانے بہت

جسے غزل سے حذف کردیا تھا اساتذہ کی خواہش کے خاطر۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کامران اس غزل کے قریب آٹھ مصرعے ہیں جو کہ برجستہ تھے۔ جن میں اک شعر یوں تھا:

دل مرا اب تختہ مشقِ اک بت خیّاط ہے
یوں طلے دانی میں انکی ہیں انگشتانے بہت

جسے غزل سے حذف کردیا تھا اساتذہ کی خواہش کے خاطر۔

اس شعر کا مطلب بھی سمجھا دیں:roll:
 
شکریہ جناب. ویسے کمال ہیں آپ کی تک بندیاں. اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا. اور ہر شعر کے پیچھے ایک گہری سوچ بھی معلوم ہوتی ہے .
جیسے
دیکھی آدم نے شبی بے دیکھے پہچانے بہت
ورنہ گندم سے الگ جنت میں تھے کھانے بہت.
واہ.
اس کے علاوہ جو آپ نے یہ "زلیخا نے" جو قافیہ میں جوڑا یقین مانیں بہت کمال اور بعید از فہم ہے. عام طور پے بہت کم ذہن اس طرف کام کرتا ہے.
 
شکریہ جناب. ویسے کمال ہیں آپ کی تک بندیاں. اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا. اور ہر شعر کے پیچھے ایک گہری سوچ بھی معلوم ہوتی ہے .
جیسے
دیکھی آدم نے شبی بے دیکھے پہچانے بہت
ورنہ گندم سے الگ جنت میں تھے کھانے بہت.
واہ.
اس کے علاوہ جو آپ نے یہ "زلیخا نے" جو قافیہ میں جوڑا یقین مانیں بہت کمال اور بعید از فہم ہے. عام طور پے بہت کم ذہن اس طرف کام کرتا ہے.

شکریہ حضرت۔
 

الف عین

لائبریرین
ساقی ہو پہلو میں کیا کرنے ہیں میخانے بہت
ہجر میں کس کام کے بے وصل پیمانے بہت
//بے وصل؟ اس سے کیا مراد ہے، یہاں اس کے بغیر مفہوم مکمل ہو جاتا ہے۔
لیکن دوسرے مصرع میں ردیف کا محل؟

زلف میں دل کو مرے آتے ہیں الجھانے بہت
انکی زلفیں الجھیں تو سلجھانے کو شانے بہت
//شعر واضح نہیں۔، کون الجھاتا ہے زلفیں، اور وہ بھی جو دل میں ہوتی ہیں زلفیں!!!

دیکھی آدم نے شبی بے دیکھے پہچانے بہت
ورنہ گندم سے الگ جنت میں تھے کھانے بہت
//یہاں بھی ’بہت‘ بیکار ہے اولیٰ مصرع میں، مطلب بھی محض دوسرے مصرع کا سمجھ میں آتا ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی قافیہ اچھا نہیں، اس کی جگہ ’دانے‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟

خم لگا کے منہ سے پی جاتے تھے مستانے بہت
ہم نے توڑے ہیں تری محفل میں پیمانے بہت
//ہم بھی ان مستانوں میں شامل ہیں کیا؟ شعر دو لخت ہے، دونوں مصرعوں میں ربط نہیں

وہ پروئے گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے
تار تو تسبیح کا چھوٹا ہے مگر دانے بہت
//دوسرا مصرع بحر سے خارج، پہلے مصرع میں بھی بات ادھوری ہے۔ یوں کہا جائے تو بہتر ہو
گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے یوں تو پروئے
تار تو تسبیح کا چھوٹا تھا، اور دانے بہت

اب نشیمن ہم نے بنوایا ہے دیکھو چاند پر
چار تنکوں پر تو آئی برق لہرانے بہت
//درست

وہ نظر آئے کہیں جو خواب میں دیکھا کہیں
ماہ رو اس شوق سے دیکھے زلیخا نے بہت
//قافیے کا اچھا استعمال ہے، پسند آیا،
وہ نظر آئے کہیں، تھا خواب میں دیکھا جسے
ماہ رو اس شوق سے دیکھے زلیخا نے بہت

صبح تک شب کی سیاہی ختم ہوجاتی ہے سب
جب بھی لکھنے کے لئےبچتے ہیں افسسانے بہت
//صبح تک شب کی سیاہی ہو چکی ہے ختم بھی
تب بھی لکھنے کے لیے بچتے ہیں افسانے بہت

شمع عریانی میں محفل پر نہ ہو جائے عیاں
رقص یوں کرتے ہیں ساری رات پروانے بہت
//درست

تربیت ملتی ہے اب نسلِ ہما کو زاغ کی
نام پر اسلام کے ہیں کفر کے گانے بہت
//درست

اے چمن کے باغباں اب عدل کی حد ہوگئی
زاغ کی ہیں چونچ میں انگور کے دانے بہت
//درست

جب دھواں گٹھتا ہے آہوں کا مرے سینے میں تب
آتی ہیں غم کی گھٹائیں اشک برسانے بہت
//درست

مرتا ہے بسمل ہر اک بہتر ہے اب کلمہ پڑہو
میں نے اتنی بات کہ دی تھی برا مانے بہت
// بسمل مرتا ہے یا ہر ایک مرتا ہے؟؟
مرنا ہے ہر ایک کو بسمل، چلو کلمہ پڑھو
میں نے اتنی بات کہہ دی تھی، برا مانے بہت
 
ساقی ہو پہلو میں کیا کرنے ہیں میخانے بہت
ہجر میں کس کام کے بے وصل پیمانے بہت
//بے وصل؟ اس سے کیا مراد ہے، یہاں اس کے بغیر مفہوم مکمل ہو جاتا ہے۔
لیکن دوسرے مصرع میں ردیف کا محل؟
جب ساقی پیاس بجھانے کو موجود ہے تو بہت سارے میخانے ہی کیوں نہ ہوں کوئی فائدہ نہیں۔
اسی طرح جب ہجر ہو تو بے وصل پیمانے یہاں پیمانوں سے ساقی کی جدائی مقصود ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہوں کے محبت کرنے والا ہی موجود نہ رہا تو لوگوں کا حجوم کس کام کا؟
ردیف کا مسئلہ یوں ہے کہ جب ساقی ہے تو بہت سارے میخانے بیکار، جب نہ ہو تو بہت سے پیمانے بیکار


زلف میں دل کو مرے آتے ہیں الجھانے بہت
انکی زلفیں الجھیں تو سلجھانے کو شانے بہت
//شعر واضح نہیں۔، کون الجھاتا ہے زلفیں، اور وہ بھی جو دل میں ہوتی ہیں زلفیں!!!
اپنی زلف میں میرے دل کو وہ الجھانے کے لئے بہت آتے ہیں
اس ’’وہ‘‘ کی وضاحت اگلے مصرعے میں ’’انکی‘‘ کرتا ہے۔


دیکھی آدم نے شبی بے دیکھے پہچانے بہت
ورنہ گندم سے الگ جنت میں تھے کھانے بہت
//یہاں بھی ’بہت‘ بیکار ہے اولیٰ مصرع میں، مطلب بھی محض دوسرے مصرع کا سمجھ میں آتا ہے۔ دوسرے مصرع میں بھی قافیہ اچھا نہیں، اس کی جگہ ’دانے‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟
صرف آدم نے ہی دیکھا تھا۔ بہت سے تو ایسے ہیں جنھوں نے بے دیکھے ہی پہچانا۔
قافیہ دانے کرلیتا ہوں


خم لگا کے منہ سے پی جاتے تھے مستانے بہت
ہم نے توڑے ہیں تری محفل میں پیمانے بہت
//ہم بھی ان مستانوں میں شامل ہیں کیا؟ شعر دو لخت ہے، دونوں مصرعوں میں ربط نہیں

میں نے تو ہم کو بھی مستانوں میں شامل کیا تھا۔ غلط ہے تو ترمیم فرمائیں۔
ہم اتنے زیادہ مستانے ہوتے تھے کہ خم ہی منہ سے لگا لیا کرتے تھے۔ تو پیمانے کا کیا فائدہ؟ اسے پھینک دیا یا توڑدیا کرتے تھے۔

وہ پروئے گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے
تار تو تسبیح کا چھوٹا ہے مگر دانے بہت
//دوسرا مصرع بحر سے خارج، پہلے مصرع میں بھی بات ادھوری ہے۔ یوں کہا جائے تو بہتر ہو
گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے یوں تو پروئے
تار تو تسبیح کا چھوٹا تھا، اور دانے بہت

دوسرا مصرعہ میں نے ایک تبصرے میں یوں کردیا تھا
تار تو تسبیح کا چھوٹا ہے پر دانے بہت۔
آپ نے پہلا مصرعہ رمل سالم فاعلاتن چار بار کردیا ہے۔ شاید غلطی سے۔

اب نشیمن ہم نے بنوایا ہے دیکھو چاند پر
چار تنکوں پر تو آئی برق لہرانے بہت
//درست

وہ نظر آئے کہیں جو خواب میں دیکھا کہیں
ماہ رو اس شوق سے دیکھے زلیخا نے بہت
//قافیے کا اچھا استعمال ہے، پسند آیا،
وہ نظر آئے کہیں، تھا خواب میں دیکھا جسے
ماہ رو اس شوق سے دیکھے زلیخا نے بہت

بہت خوب۔

صبح تک شب کی سیاہی ختم ہوجاتی ہے سب
جب بھی لکھنے کے لئےبچتے ہیں افسسانے بہت
//صبح تک شب کی سیاہی ہو چکی ہے ختم بھی
تب بھی لکھنے کے لیے بچتے ہیں افسانے بہت

کیا ’’ہو چکی‘‘ کے ساتھ ’’بچتے‘‘ ٹھیک ہوگا؟ ’’بچے‘‘ نہیں آئیگا؟ علم کے لئے سوال۔ انکار نہیں ہے۔
اگر ٹھیک ہے تو ترمیم شدہ شعر عمدہ ہے

شمع عریانی میں محفل پر نہ ہو جائے عیاں
رقص یوں کرتے ہیں ساری رات پروانے بہت
//درست

تربیت ملتی ہے اب نسلِ ہما کو زاغ کی
نام پر اسلام کے ہیں کفر کے گانے بہت
//درست

اے چمن کے باغباں اب عدل کی حد ہوگئی
زاغ کی ہیں چونچ میں انگور کے دانے بہت
//درست

جب دھواں گٹھتا ہے آہوں کا مرے سینے میں تب
آتی ہیں غم کی گھٹائیں اشک برسانے بہت
//درست

مرتا ہے بسمل ہر اک بہتر ہے اب کلمہ پڑہو
میں نے اتنی بات کہ دی تھی برا مانے بہت
// بسمل مرتا ہے یا ہر ایک مرتا ہے؟؟
مرنا ہے ہر ایک کو بسمل، چلو کلمہ پڑھو
میں نے اتنی بات کہہ دی تھی، برا مانے بہت
بہت عمدہ ترمیم

یہ صرف وہ تھا جو میں نے سوچ کر لکھا تھا استادِ محترم کی اصلاح کا انکار ہرگز مقصود نہیں۔ اور اسی بہانے کچھ سیکھنے کو ہی ملے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع: ساقی کی ی بھی گر رہی ہے، اس کی جگہ یار کر دیا جائے؟
اس کے علاوہ یہی مفہوم یوں ادا ہو سکتا ہے
ہجر میں کس کام کے، ہوں چاہے پیمانے بہت
شعر2
اس میں الفاظ کی نشست درست نہیں، جو ہے اس سے درست مفہوم برامد نہیں ہوتا۔
باقی بعد میں
 

الف عین

لائبریرین
شعر 2 میں دوسرے مصرع میں ی کا متعدد بار اسقاط ہوا ہے، وہ بھی احسن نہیں۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے

آئے ہیں دل کو مرے زلفوں میں الجھانے بہت

جب الجھ جائیں تو سلجھانے کو ہیں شانے بہت

دیکھی آدم نے شبی بے دیکھے پہچانے بہت
ورنہ گندم سے الگ جنت میں تھے کھانے بہت

دونوں مصرعوں میں ربط اب بھی سمجھ میں نہیں آتا، شبی سے مراد تو شاید ’شبیہ‘ ہے، جس کا تلفظ غلط باندھا ہے، اب تک اس لئے کچھ کہا نہیں تھا کہ مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔میرے خیال میں دونوں مصرعوں کو دو مکمل اشعار میں بدلنے کی ضرورت ہے، ورنہ اس کو نکال ہی دو

خم لگا کے منہ سے پی جاتے تھے مستانے بہت
ہم نے توڑے ہیں تری محفل میں پیمانے بہت
سے یہ کہاں مطلب برامد ہوتا ہے کہ ہم کو پیمانوں کی ضرورت ہی نہیں تھی!! بظاہر تو مستی میں پی کر ہی پیمانے توڑے جاتے ہیں۔ دوسرا مصرع یوں کر دو

بزم ساقی میں نہ کچھ کام آئے پیمانے بہت
اس شعر سے میں اب بھی مطمئن نہیں ہوں۔

’’گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے یوں تو پروئے
تار تو تسبیح کا چھوٹا تھا، اور دانے بہت

دوسرا مصرعہ میں نے ایک تبصرے میں یوں کردیا تھا
تار تو تسبیح کا چھوٹا ہے پر دانے بہت۔
آپ نے پہلا مصرعہ رمل سالم فاعلاتن چار بار کردیا ہے۔ شاید غلطی سے۔‘‘
یہ بھی وہی ارکان ہیں، چوتھا فاعلان کے طور پر تقطیع ہو گا۔ پروئے کا ’ئے‘ مکمل 2 کے طور پر نہیں، ے کا اسقاط ہے، صرف پروء تقطیع ہو گا۔ دوسرے مصرع میں ’تھا‘ اس لئے بہتر ہے کہ پہلے میں ماضی کا ہی صیغہ ہے۔ اب ایک اور تصحیح کر رہا ہوں، پہلے مصرع میں ’تو‘ کی جگہ ’بھی‘ کر دیں تو کیسا رہے گا؟ ۔ تو کا طویل تقطیع ہونا بھی ایک قباحت تھی۔
گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے یوں بھی پروئے
تار تو تسبیح کا چھوٹا تھا، اور دانے بہت

’’صبح تک شب کی سیاہی ہو چکی ہے ختم بھی
تب بھی لکھنے کے لیے بچتے ہیں افسانے بہت

کیا ’’ہو چکی‘‘ کے ساتھ ’’بچتے‘‘ ٹھیک ہوگا؟ ’’بچے‘‘ نہیں آئیگا؟ علم کے لئے سوال۔ انکار نہیں ہے۔
اگر ٹھیک ہے تو ترمیم شدہ شعر عمدہ ہے‘‘
’بچتے‘ میں کوئی سقم نہیں، بلکہ معنی کے حساب سے بہتر ہے۔
 
Top