میں بھی پاکستان ہُوں, تُو بھی پاکستان ہے

شنید ہے کہ اِس سال میرے وطن کے سبز ہلالی پرچم کو اپنی خوبصورتی اور معنویت کے اعتبار سے دنیا بھر کے پرچموں میں 139 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر رکھا گیا ہے. اِس خبر نے جہاں دِل کو فرطِ انبساط میں بھگویا , وہیں دماغ میں سوچ کے نئے دَر وا کِیے. گزشتہ سال اگست کی بات ہے کہ مجھے بازار جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں یومِ آزادی سے متعلقہ اشیاء کے سٹال پر رک گئی. پاکستانی پرچم کے نام پر دکاندار نے جو جو جھنڈے دکھائے, میرے ناقص علم کے مطابق وہ پاکستانی جھنڈے ہرگز نہیں تھے, حتیٰ کہ اس نے جتنے بھی جھنڈے دکھائے اُن میں پاکستانی جھنڈا کہیں موجود نہیں تھا. جب میں نے اُسے مطلوبہ جھنڈے کی نشانیاں بتائیں تَو اس نے مجھے دقیانوسی خیال کِیا اور بتایا کہ آج کل تَو یہی رواج ہے اور اِسی طرح کے جھنڈے اور جھنڈیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں. مگر میں ان جھنڈوں کو پاکستانی جھنڈا نہیں مان سکتی جن پر قائد اعظم یا کسی بھی اور رہنما کی تصاویر ہوں یا جشنِ آزادی مبارک لکھا ہو. دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں قومی پرچم سے ہلکی سی چھیڑ چھاڑ حتٰی کہ صرف اس کے رنگ کا شیڈ بدل دینے پر تین سے پانچ سال قید کی سزا سُنائی جاتی ہے , مگر ہمارے ہاں تَو کئی رنگوں کی ہلالی جھنڈیاں اور خود ساختہ جھنڈے دستیاب ہیں جو ہاتھوں ہاتھ بِکتے ہیں اور مجھ ایسوں کو خبطی سمجھا جاتا ہے جو اِس دوڑ میں شامل نہیں اور اپنا راگ الاپ رہے ہیں.
ہمارے ہاں دو طبقے موجود ہیں. ایک طبقہ وہ ہے جو بِنا سوچے سمجھے ہی سب کی دیکھا دیکھی ہر کام کِیے جاتا ہے اور اِسی میں راضی ہے کہ میں وہی کر رہا ہُوں جو "سب" کر رہے ہیں اور دُوسرا طبقہ وہ ہے جو ہمارے اندر موجود ہر خرابی کو امریکہ , انڈیا اور دوسرے ممالک اور تنظیموں کی سازش بتاتا ہے اور لاحول ولاقوۃ پڑھتا ہوا اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویّہ رکھتے ہُوئے گزر جاتا ہے . افسوس صد افسوس! ہمارے درمیان ایسا کوئی قابلِ ذکر طبقہ موجود نہیں جو 'حلقۂ یاراں' میں بریشم کی طرح نرم ہو اور 'رزمِ حق و باطل' میں فولاد کی طرح مضبوط ہو, جو اپنی طاقت کے بارے میں ادراک رکھتا ہو اور جس کا رویہ اندھا دھند تقلید یا سر تا پا تنقیص سے ہٹ کر ہو.ہاں! ہمارے ملک کے ہر شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جن کی ایمانداری اور محنت کے باعث ملک چل رہا ہے. مگر اکثریت کی حالت بہت ابتر اور رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے. مَیں ایسی قوم سے ہُوں جو بالکل اس انداز سے سوئی ہُوئی جیسے بس میں سوار مسافر سوتا ہے, جو ذرا سا جھٹکا لگنے پر آنکھیں کھولتا ہے, کبھی 'کیا ہُوا , کیوں ہوا' کی صدا بلند کرتا ہے اور کبھی اردگرد والوں کو صلواتیں سناتا ہے اور دوبارہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوجاتا ہے.
میں ایسی قوم سے ہُوں جو اسی فخر میں سینہ پھلائے رکھتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے سائنسی , علمی, مذہبی تقریباََ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے اور ہمارے آباء نے سینکڑوں برس برِّصغیر پر حکومت کی. مگر میری قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تُم خوار ہُوئے تارکِ قُرآں ہو کر

آج میرے یہاں شمشیر و سناں آخر ہوئے اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے اور پُوری قوم کو اِسی طاؤس و رباب نے جکڑ رکھا ہے. ہم سب ایک عجیب زندگی گزار رہے ہیں جو تین چیزوں کے گِرد گھومتی ہے , "انٹرٹینمنٹ, انٹرٹینمنٹ , انٹرٹینمنٹ" !! اور یہی ہمارے گولہ کا سب سے بڑا رانگ نمبر ہے اور اس رانگ نمبر کو رائٹ نمبر سے تبدیل "ہم" نے کرنا ہے. ہمارے حکمران یا دوسرے ممالک اپنی سازشوں سے اس وقت تک ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو ان سازشوں کا حصہ نہ بننے دیں. ہم اپنی طاقت پہچان لیں اور دوسروں کی بچھائی ہوئی شطرنج کی بساط کا مہرہ ہم اپنے آپ کو نہ بننے دیں , صرف یہی ہے جو ہمیں کرنا ہے. ہمیں قرآن پاک کو پسِ پشت نہیں ڈالنا , ہمیں فقط ایک سجدہ درکار ہے جو ہمیں بقیہ تمام سجدوں سے نجات دے دے گا. ہمیں بھڑکنا نہیں ہے! ہماری قوم کو جذباتی سمجھ کر تیلی لگا دی جاتی ہے اور ہم مہرہ بن جاتے ہیں اور ہمیشہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں. جس پاکستان کے لیے لاکھوں جانیں اور عصمتیں قربان ہُوئیں , وہ سفر وہیں ختم نہیں ہوا . منزلِ مقصود ابھی تک نہیں ملی . روز لاشیں گِرتی ہیں , روز عصمتیں پامال ہوتی ہیں اِسی وطن کے لِیے , اِسی وطن میں , ہم ہی قتل ہو رہے ہیں اور ہم ہی قتل کر رہے ہیں. یہ سب تارکِ قرآن ہونے کا نتیجہ ہے. اگر ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تَو اور کوئی طاقت نہیں جو ہمیں کمزور کر سکے یا ہم میں پھوٹ ڈال سکے. بقول شاعر:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گُل بھی ہے
انہی پابندیوں میں رہ کرحاصل آزادی کوتُو کرلے

یہ جشن تَو چند روزہ ہے , اس کے بعد وہی الراشی والمرتشی والا نظام صبح و شام شروع ہو جائے گا , وہی قتل و غارت گری , اغواء , کرپشن. ,عصمت دری.....ہم میں سے ہر کوئی ایک جِتنا نکھٹو اور کام چور ہے. ملازمین چاہتے ہیں کہ انہیں کام نہ کرنا پڑے اور تنخواہیں مِلتی رہیں, مالکان چاہتے ہیں کہ عوام کو نچوڑ کر سارا پیسہ کسی نہ کسی طرح اپنی ٹوکری میں ڈال لِیا جائے اور طلباء یہ چاہتے ہیں کہ انہیں پڑھنا نہ پڑے اور کسی نہ کسی طرح بس نمبر آتے رہیں. ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ , اپنے اپنے حصّے کی کرپشن کر رہا ہے. اگر ہم نظام بدل نہیں سکتے یا نظام بدلنے کی طاقت خود میں نہیں پاتے تَو کم از کم اِس نظام کا حصّہ نہ بنیں اور اگر اس نظام کا حصہ بننا ہمارے لیے ناگزیر ہے تَو کم از کم کسی ایسے شخص کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں جو اس نظام کا حصّہ نہ بننے کی حتی المقدور کوشش کر رہا ہو.
صدیوں پہلے کا ذکر ہے کہ دو انتہائی گہرے دوست ایک گاؤں میں رہتے تھے . ایک دوست چھے سال کا تھا اور دوسرا دَس سال کا. ایک دن وہ اپنے گاؤں سے دُور واقع ایک کنوئیں پر گئے. بڑا لڑکا حادثاتی طور پر کنوئیں میں گِر گیا. چھوٹا لڑکا بے چینی سے کبھی اِدھر جاتا اور کبھی اُدھر تاکہ کوئی بڑا آدمی نظر آئے اور اس سے مدد مانگی جا سکے , مگر اسے وہاں کوئی نہ ملا. بالآخر اس نے اپنی مدد آپ کے تحت کنویں میں ڈول ڈال کر رسّی کی مدد سے اپنے دوست کو اوپر کھینچ لِیا. جب وہ واپس گاؤں آئے اور انہوں نے یہ واقعہ اپنے گاؤں کے لوگوں کو سُنایا تَو کسی نے یقین نہ کِیا کہ ایک چھے سالہ بچے نے اتنی طاقت لگا کر دَس سالہ بچے کو اتنے گہرے کنوئیں میں سے نکال لیا. بالآخر ایک بزرگ نے ان بچوں کے سنائے گئے واقعے کی تائید کی اور کہا کہ چھوٹا بچہ دور دور تک گیا اور اسے وہاں کوئی نہ ملا اس کا فائدہ یہ ہُوا کہ اس وقت دُور دُور تک اُسے یہ کہنے والا کوئی نہیں تھا کہ ""تُم یہ نہیں کر سکتے!!"" اِسی لیے اس نے کر دکھایا. مگر آج ہماری قوم میں سے ہر فرد دوسرے فرد کا مورال پست کرنے میں لگا ہُوا ہے , حتی کہ قریب ترین لوگ ایک دوسرے کو بس یہی کہتے ہیں کہ "تم یہ نہیں کر سکتے". آپ کہئیے کہ "تم یہ کر سکتے ہو اور یہ تم ہی کروگے!!" تَو نتیجہ دیکھئیے. یہی وہ فقرہ تھا جو علامہ اقبال نے قائداعظم کو کہا تھا اور اس فقرے کے ثمر کے حصول کا جشن ہی تَو آج ہم منا رہے ہیں.
یہ میرا وطنِ عزیز ہی ہے جس کی بیٹی علم کی علامت قرار پاتی ہے اور جس کی ٹیچر کو "" ٹیچر آف دا یونیورس"' کا اعزاز ملتا ہے. میرے ملک کا باسی دنیا بھر کا او لیول کا ریکارڈ توڑتا ہے تَو میرے ملک کی دختر کم عمر ترین سوفٹ وئیر انجنئیر کا اعزاز پاتی ہے. NASA میں ایک بڑی تعداد میرے ملک کے سائنسدانون کی ہے اور دنیا کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ 'میرا ایدھی' چلاتا ہے. ہزاروں مصائب اور چیلنجز کے باوجود میرے وطن کے باسیوں نے ساری دنیا کو کر دِکھایا . لیکن مجھے اور آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ کہیں ہم کسی اور اُبھرتے ہُوئے سِتارے کی راہ کا کانٹا تو نہیں بن رہے؟ کہیں ہم کسی اور ایدھی پر طعن و تشنیع کے نشتر تَو نہیں چلا رہے؟ کہیں ہم کسی کی ترقی کی راہ میں حائل ہونے کے مرتکب تَو نہیں. اگر ہم اور آپ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے تَو مت کیجئیے مگر اپنے نیند میں بولنے کی عادت سے دوسروں کی راہ کھوٹی مت کیجئیے. صرف چند روزہ جشن منانا اور اس پہ ہزاروں خرچ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا , آئیے ہم سب تنقیص کا حصہ بننے کی بجائے تعمیر کا حصہ بنیں اور اپنے اپنے حصے کی کم از کم ایک اینٹ ضرور رکھیں , آئیے میں اور آپ آج اپنی ایک بری عادت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں! کیونکہ پاکستان "ہم" سے ہے!
(مریم افتخار)
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
اک فکر انگیز تحریر
جو قاری کو نا امیدی اور قنوطیت میں مبتلا کیئے بنا " تعمیر وطن " کی جانب بلاتی ہے ۔
سچ لکھا محترم بٹیا آپ نے

ہمارے ہاں دو طبقے موجود ہیں. ایک طبقہ وہ ہے جو بِنا سوچے سمجھے ہی سب کی دیکھا دیکھی ہر کام کِیے جاتا ہے اور اِسی میں راضی ہے کہ میں وہی کر رہا ہُوں جو "سب" کر رہے ہیں اور دُوسرا فرقہ وہ ہے جو ہمارے اندر موجود ہر خرابی کو امریکہ , انڈیا اور دوسرے ممالک اور تنظیموں کی سازش بتاتا ہے اور لاحول ولاقوۃ پڑھتا ہوا اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویّہ رکھتے ہُوئے گزر جاتا ہے . افسوس صد افسوس! ہمارے درمیان ایسا کوئی قابلِ ذکر فرقہ موجود نہیں جو 'حلقۂ یاراں' کے لیے بریشم کی طرح نرم ہو اور 'رزمِ حق و باطل' میں فولاد کی طرح مضبوط ہو, جو اپنی طاقت کے بارے میں ادراک رکھتا ہو اور جس کا رویہ اندھا دھند تقلید یا سر تا پا تنقیص سے ہٹ کر ہو.ہاں! ہمارے ملک کے ہو شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جن کی ایمانداری اور محنت کے باعث ملک چل رہا ہے. مگر اکثریت کی حالت بہت ابتر اور رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے. مَیں ایسی قوم سے ہُوں جو بالکل اس انداز سے سوئی ہُوئی جیسے بس میں سوار مسافر سوتا ہے, جو ذرا سا جھٹکا لگنے پر آنکھیں کھولتا ہے, کبھی 'کیا ہُوا , کیوں ہوا' کی صدا بلند کرتا ہے اور کبھی اردگرد والوں کو صلواتیں سناتا ہے اور دوبارہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوجاتا ہے.

صرف چند روزہ جشن منانا اور اس پہ ہزاروں خرچ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا , آئیے ہم سب تنقیص کا حصہ بننے کی بجائے تعمیر کا حصہ بنیں اور اپنے اپنے حصے کی کم از کم ایک اینٹ ضرور رکھیں , آئیے میں اور آپ! کیونکہ پاکستان "ہم" سے ہے!
بلا شک ہمیں تنقید برائے تنقید سے نکل کر تعمیر وطن میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیئے کہ وطن ہمارا ہے
اورہم سب اپنی اپنی جگہ وطن کے سفیر ہوتے اس کے خدمت گار ہیں ۔
اللہ سوہنا ہم پر ہمارے وطن پر اپنا کرم فرمائے اور ہمیں اپنے حصے کے چراغ جلانے کی توفیق سے نوازے آمین
ڈھیروں دعائیں
 
لا جواب اور بلا تبصرہ۔
کوئی نکتہ ایسا نہیں جس سے اختلاف کیا جا سکے، یا مزید کچھ اضافہ کیا جا سکے۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
بے حد شکریہ تابش بھائی. آپ کے الفاظ گویا شفقت کے موتی ہیں میرے لیے اور ہمیشہ رہے ہیں. جزاک اللہ!
 

حسن ترمذی

محفلین
زبردست تحریر.. ہم جیسے نکھٹو بھی اسے ریٹنگ دے کر تعریف و توصیف کرکے دعائیں دے کر. واہ میری بہن واہ بٹیا رانی کہہ کر پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں گے.. وہی دنیا داری, لہو و لعب میں مشغول ہوجائیں..
بہرحال جو بھی ہو آزادی کا جشن تو بنتا ہے نا.. چاہے گاڑی پر پاکستانی جھنڈا لگاکر اندر انڈین گانے چلا کر ہی
 
زبردست تحریر.. ہم جیسے نکھٹو بھی اسے ریٹنگ دے کر تعریف و توصیف کرکے دعائیں دے کر. واہ میری بہن واہ بٹیا رانی کہہ کر پھر اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں گے.. وہی دنیا داری, لہو و لعب میں مشغول ہوجائیں..
بہرحال جو بھی ہو آزادی کا جشن تو بنتا ہے نا.. چاہے گاڑی پر پاکستانی جھنڈا لگاکر اندر انڈین گانے چلا کر ہی
یہی تَو بات ہے حضور!
 

جاسمن

لائبریرین
میرے دل کی باتیں ہیں سب۔ سو فی صد متفق۔بہت اعلیٰ تحریر ہے۔خوب لکھا ہے اور دل سے لکھا ہے اس لیے دل میں اُتر گیا ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
شنید ہے کہ اِس سال میرے وطن کے سبز ہلالی پرچم کو اپنی خوبصورتی اور معنویت کے اعتبار سے دنیا بھر کے پرچموں میں 139 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر رکھا گیا ہے. اِس خبر نے جہاں دِل کو فرطِ انبساط میں بھگویا , وہیں دماغ میں سوچ کے نئے دَر وا کِیے. گزشتہ سال اگست کی بات ہے کہ مجھے بازار جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں یومِ آزادی سے متعلقہ اشیاء کے سٹال پر رک گئی. پاکستانی پرچم کے نام پر دکاندار نے جو جو جھنڈے دکھائے, میرے ناقص علم کے مطابق وہ پاکستانی جھنڈے ہرگز نہیں تھے, حتیٰ کہ اس نے جتنے بھی جھنڈے دکھائے اُن میں پاکستانی جھنڈا کہیں موجود نہیں تھا. جب میں نے اُسے مطلوبہ جھنڈے کی نشانیاں بتائیں تَو اس نے مجھے دقیانوسی خیال کِیا اور بتایا کہ آج کل تَو یہی رواج ہے اور اِسی طرح کے جھنڈے اور جھنڈیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں. مگر میں ان جھنڈوں کو پاکستانی جھنڈا نہیں مان سکتی جن پر قائد اعظم یا کسی بھی اور رہنما کی تصاویر ہوں یا جشنِ آزادی مبارک لکھا ہو. دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں قومی پرچم سے ہلکی سی چھیڑ چھاڑ حتٰی کہ صرف اس کے رنگ کا شیڈ بدل دینے پر تین سے پانچ سال قید کی سزا سُنائی جاتی ہے , مگر ہمارے ہاں تَو کئی رنگوں کی ہلالی جھنڈیاں اور خود ساختہ جھنڈے دستیاب ہیں جو ہاتھوں ہاتھ بِکتے ہیں اور مجھ ایسوں کو خبطی سمجھا جاتا ہے جو اِس دوڑ میں شامل نہیں اور اپنا راگ الاپ رہے ہیں.
ہمارے ہاں دو طبقے موجود ہیں. ایک طبقہ وہ ہے جو بِنا سوچے سمجھے ہی سب کی دیکھا دیکھی ہر کام کِیے جاتا ہے اور اِسی میں راضی ہے کہ میں وہی کر رہا ہُوں جو "سب" کر رہے ہیں اور دُوسرا فرقہ وہ ہے جو ہمارے اندر موجود ہر خرابی کو امریکہ , انڈیا اور دوسرے ممالک اور تنظیموں کی سازش بتاتا ہے اور لاحول ولاقوۃ پڑھتا ہوا اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویّہ رکھتے ہُوئے گزر جاتا ہے . افسوس صد افسوس! ہمارے درمیان ایسا کوئی قابلِ ذکر فرقہ موجود نہیں جو 'حلقۂ یاراں' کے لیے بریشم کی طرح نرم ہو اور 'رزمِ حق و باطل' میں فولاد کی طرح مضبوط ہو, جو اپنی طاقت کے بارے میں ادراک رکھتا ہو اور جس کا رویہ اندھا دھند تقلید یا سر تا پا تنقیص سے ہٹ کر ہو.ہاں! ہمارے ملک کے ہو شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جن کی ایمانداری اور محنت کے باعث ملک چل رہا ہے. مگر اکثریت کی حالت بہت ابتر اور رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے. مَیں ایسی قوم سے ہُوں جو بالکل اس انداز سے سوئی ہُوئی جیسے بس میں سوار مسافر سوتا ہے, جو ذرا سا جھٹکا لگنے پر آنکھیں کھولتا ہے, کبھی 'کیا ہُوا , کیوں ہوا' کی صدا بلند کرتا ہے اور کبھی اردگرد والوں کو صلواتیں سناتا ہے اور دوبارہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوجاتا ہے.
میں ایسی قوم سے ہُوں جو اسی فخر میں سینہ پھلائے رکھتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے سائنسی , علمی, مذہبی تقریباََ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے اور ہمارے آباء نے سینکڑوں برس برِّصغیر پر حکومت کی. مگر میری قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تُم خوار ہُوئے تارکِ قُرآں ہو کر

آج میرے یہاں شمشیر و سناں آخر ہوئے اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے اور پُوری قوم کو اِسی طاؤس و رباب نے جکڑ رکھا ہے. ہم سب ایک عجیب زندگی گزار رہے ہیں جو تین چیزوں کے گِرد گھومتی ہے , "انٹرٹینمنٹ, انٹرٹینمنٹ , انٹرٹینمنٹ" !! اور یہی ہمارے گولہ کا سب سے بڑا رانگ نمبر ہے اور اس رانگ نمبر کو رائٹ نمبر سے تبدیل "ہم" نے کرنا ہے. ہمارے حکمران یا دوسرے ممالک اپنی سازشوں سے اس وقت تک ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو ان سازشوں کا حصہ نہ بننے دیں. ہم اپنی طاقت پہچان لیں اور دوسروں کی بچھائی ہوئی شطرنج کی بساط کا مہرہ ہم اپنے آپ کو نہ بننے دیں , صرف یہی ہے جو ہمیں کرنا ہے. ہمیں قرآن پاک کو پسِ پشت نہیں ڈالنا , ہمیں فقط ایک سجدہ درکار ہے جو ہمیں بقیہ تمام سجدوں سے نجات دے دے گا. ہمیں بھڑکنا نہیں ہے! ہماری قوم کو جذباتی سمجھ کر تیلی لگا دی جاتی ہے اور ہم مہرہ بن جاتے ہیں اور ہمیشہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں. جس پاکستان کے لیے لاکھوں جانیں اور عصمتیں قربان ہُوئیں , وہ سفر وہیں ختم نہیں ہوا . منزلِ مقصود ابھی تک نہیں ملی . روز لاشیں گِرتی ہیں , روز عصمتیں پامال ہوتی ہیں اِسی وطن کے لِیے , اِسی وطن میں , ہم ہی قتل ہو رہے ہیں اور ہم ہی قتل کر رہے ہیں. یہ سب تارکِ قرآن ہونے کا نتیجہ ہے. اگر ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تَو اور کوئی طاقت نہیں جو ہمیں کمزور کر سکے یا ہم میں پھوٹ ڈال سکے. بقول شاعر:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گُل بھی ہے
انہی پابندیوں میں رہ کرحاصل آزادی کوتُو کرلے

یہ جشن تَو چند روزہ ہے , اس کے بعد وہی الراشی والمرتشی والا نظام صبح و شام شروع ہو جائے گا , وہی قتل و غارت گری , اغواء , کرپشن. ,عصمت دری.....ہم میں سے ہر کوئی ایک جِتنا نکھٹو اور کام چور ہے. ملازمین چاہتے ہیں کہ انہیں کام نہ کرنا پڑے اور تنخواہیں مِلتی رہیں, مالکان چاہتے ہیں کہ عوام کو نچوڑ کر سارا پیسہ کسی نہ کسی طرح اپنی ٹوکری میں ڈال لِیا جائے اور طلباء یہ چاہتے ہیں کہ انہیں پڑھنا نہ پڑے اور کسی نہ کسی طرح بس نمبر آتے رہیں. ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ , اپنے اپنے حصّے کی کرپشن کر رہا ہے. اگر ہم نظام بدل نہیں سکتے یا نظام بدلنے کی طاقت خود میں نہیں پاتے تَو کم از کم اِس نظام کا حصّہ نہ بنیں اور اگر اس نظام کا حصہ بننا ہمارے لیے ناگزیر ہے تَو کم از کم کسی ایسے شخص کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں جو اس نظام کا حصّہ نہ بننے کی حتی المقدور کوشش کر رہا ہو.
صدیوں پہلے کا ذکر ہے کہ دو انتہائی گہرے دوست ایک گاؤں میں رہتے تھے . ایک دوست چھے سال کا تھا اور دوسرا دَس سال کا. ایک دن وہ اپنے گاؤں سے دُور واقع ایک کنویں پر گئے. بڑا لڑکا حادثاتی طور پر کنوئیں میں گِر گیا. چھوٹا لڑکا بے چینی سے کبھی اِدھر جاتا اور کبھی اُدھر تاکہ کوئی بڑا آدمی نظر آئے اور اس سے مدد مانگی جا سکے , مگر اسے وہاں کوئی نہ ملا. بالآخر اس نے اپنی مدد آپ کے تحت کنویں میں ڈول ڈال کر رسّی کی مدد سے اپنے دوست کو اوپر کھینچ لِیا. جب وہ واپس گاؤں آئے اور انہوں نے یہ واقعہ اپنے گاؤں کے لوگوں کو سُنایا تَو کسی نے یقین نہ کِیا کہ ایک چھے سالہ بچے نے اتنی طاقت لگا کر دَس سالہ بچے کو اتنے گہرے کنوئیں میں سے نکال لیا. بالآخر ایک بزرگ نے ان بچوں کے سنائے گئے واقعے کی تائید کی اور کہا کہ چھوٹا بچہ دور دور تک گیا اور اسے وہاں کوئی نہ ملا اس کا فائدہ یہ ہُوا کہ اس وقت دُور دُور تک اُسے یہ کہنے والا کوئی نہیں تھا کہ ""تُم یہ نہیں کر سکتے!!"" اِسی لیے اس نے کر دکھایا. مگر آج ہماری قوم میں سے ہر فرد دوسرے فرد کا مورال پست کرنے میں لگا ہُوا ہے , حتی کہ قریب ترین لوگ ایک دوسرے کو بس یہی کہتے ہیں کہ "تم یہ نہیں کر سکتے". آپ کہئیے کہ "تم یہ کر سکتے ہو اور یہ تم ہی کرو گ!!" تَو نتیجہ دیکھئیے. یہی وہ فقرہ تھا جو علامہ اقبال نے قائداعظم کو کہا تھا اور اس فقرے کے ثمر کے حصول کا جشن ہی تَو آج ہم منا رہے ہیں.
یہ میرا وطنِ عزیز ہی ہے جس کی بیٹی علم کی علامت قرار پاتی ہے اور جس کی ٹیچر کو "" ٹیچر آف دا یونیورس"' کا اعزاز ملتا ہے. میرے ملک کا باسی دنیا بھر کا او لیول کا ریکارڈ توڑتا ہے تَو میرے ملک کی دختر کم عمر ترین سوفٹ وئیر انجنئیر کا اعزاز پاتی ہے. NASA میں ایک بڑی تعداد میرے ملک کے سائنسدانون کی ہے اور دنیا کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ 'میرا ایدھی' چلاتا ہے. ہزاروں مصائب اور چیلنجز کے باوجود میرے وطن کے باسیوں نے ساری دنیا کو کر دِکھایا . لیکن مجھے اور آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ کہیں ہم کسی اور اُبھرتے ہُوئے سِتارے کی راہ کا کانٹا تو نہیں بن رہے؟ کہیں ہم کسی اور ایدھی پر طعن و تشنیع کے نشتر تَو نہیں چلا رہے؟ کہیں ہم کسی کی ترقی کی راہ میں حائل ہونے کے مرتکب تَو نہیں. اگر ہم اور آپ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے تَو مت کیجئیے مگر اپنے نیند میں بولنے کی عادت سے دوسروں کی راہ کھوٹی مت کیجئیے. صرف چند روزہ جشن منانا اور اس پہ ہزاروں خرچ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا , آئیے ہم سب تنقیص کا حصہ بننے کی بجائے تعمیر کا حصہ بنیں اور اپنے اپنے حصے کی کم از کم ایک اینٹ ضرور رکھیں , آئیے میں اور آپ آج اپنی ایک بری عادت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں! کیونکہ پاکستان "ہم" سے ہے!
(مریم افتخار)
بہت عمدہ مریم، بہت اچھا لکھا۔
چند ایک جگہوں پر ٹائپو یا املائی اغلاط تحریر کے حُسن کو گہنا رہی ہیں انہیں درست کر لیجیے۔
 

فاخر رضا

محفلین
شنید ہے کہ اِس سال میرے وطن کے سبز ہلالی پرچم کو اپنی خوبصورتی اور معنویت کے اعتبار سے دنیا بھر کے پرچموں میں 139 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر رکھا گیا ہے. اِس خبر نے جہاں دِل کو فرطِ انبساط میں بھگویا , وہیں دماغ میں سوچ کے نئے دَر وا کِیے. گزشتہ سال اگست کی بات ہے کہ مجھے بازار جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں یومِ آزادی سے متعلقہ اشیاء کے سٹال پر رک گئی. پاکستانی پرچم کے نام پر دکاندار نے جو جو جھنڈے دکھائے, میرے ناقص علم کے مطابق وہ پاکستانی جھنڈے ہرگز نہیں تھے, حتیٰ کہ اس نے جتنے بھی جھنڈے دکھائے اُن میں پاکستانی جھنڈا کہیں موجود نہیں تھا. جب میں نے اُسے مطلوبہ جھنڈے کی نشانیاں بتائیں تَو اس نے مجھے دقیانوسی خیال کِیا اور بتایا کہ آج کل تَو یہی رواج ہے اور اِسی طرح کے جھنڈے اور جھنڈیاں مارکیٹ میں دستیاب ہیں. مگر میں ان جھنڈوں کو پاکستانی جھنڈا نہیں مان سکتی جن پر قائد اعظم یا کسی بھی اور رہنما کی تصاویر ہوں یا جشنِ آزادی مبارک لکھا ہو. دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں قومی پرچم سے ہلکی سی چھیڑ چھاڑ حتٰی کہ صرف اس کے رنگ کا شیڈ بدل دینے پر تین سے پانچ سال قید کی سزا سُنائی جاتی ہے , مگر ہمارے ہاں تَو کئی رنگوں کی ہلالی جھنڈیاں اور خود ساختہ جھنڈے دستیاب ہیں جو ہاتھوں ہاتھ بِکتے ہیں اور مجھ ایسوں کو خبطی سمجھا جاتا ہے جو اِس دوڑ میں شامل نہیں اور اپنا راگ الاپ رہے ہیں.
ہمارے ہاں دو طبقے موجود ہیں. ایک طبقہ وہ ہے جو بِنا سوچے سمجھے ہی سب کی دیکھا دیکھی ہر کام کِیے جاتا ہے اور اِسی میں راضی ہے کہ میں وہی کر رہا ہُوں جو "سب" کر رہے ہیں اور دُوسرا طبقہ وہ ہے جو ہمارے اندر موجود ہر خرابی کو امریکہ , انڈیا اور دوسرے ممالک اور تنظیموں کی سازش بتاتا ہے اور لاحول ولاقوۃ پڑھتا ہوا اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویّہ رکھتے ہُوئے گزر جاتا ہے . افسوس صد افسوس! ہمارے درمیان ایسا کوئی قابلِ ذکر طبقہ موجود نہیں جو 'حلقۂ یاراں' میں بریشم کی طرح نرم ہو اور 'رزمِ حق و باطل' میں فولاد کی طرح مضبوط ہو, جو اپنی طاقت کے بارے میں ادراک رکھتا ہو اور جس کا رویہ اندھا دھند تقلید یا سر تا پا تنقیص سے ہٹ کر ہو.ہاں! ہمارے ملک کے ہر شعبے میں آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ضرور موجود ہیں جن کی ایمانداری اور محنت کے باعث ملک چل رہا ہے. مگر اکثریت کی حالت بہت ابتر اور رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے. مَیں ایسی قوم سے ہُوں جو بالکل اس انداز سے سوئی ہُوئی جیسے بس میں سوار مسافر سوتا ہے, جو ذرا سا جھٹکا لگنے پر آنکھیں کھولتا ہے, کبھی 'کیا ہُوا , کیوں ہوا' کی صدا بلند کرتا ہے اور کبھی اردگرد والوں کو صلواتیں سناتا ہے اور دوبارہ خوابِ خرگوش میں مدہوش ہوجاتا ہے.
میں ایسی قوم سے ہُوں جو اسی فخر میں سینہ پھلائے رکھتی ہے کہ ہمارے بزرگوں نے سائنسی , علمی, مذہبی تقریباََ ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑے اور ہمارے آباء نے سینکڑوں برس برِّصغیر پر حکومت کی. مگر میری قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تُم خوار ہُوئے تارکِ قُرآں ہو کر

آج میرے یہاں شمشیر و سناں آخر ہوئے اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے اور پُوری قوم کو اِسی طاؤس و رباب نے جکڑ رکھا ہے. ہم سب ایک عجیب زندگی گزار رہے ہیں جو تین چیزوں کے گِرد گھومتی ہے , "انٹرٹینمنٹ, انٹرٹینمنٹ , انٹرٹینمنٹ" !! اور یہی ہمارے گولہ کا سب سے بڑا رانگ نمبر ہے اور اس رانگ نمبر کو رائٹ نمبر سے تبدیل "ہم" نے کرنا ہے. ہمارے حکمران یا دوسرے ممالک اپنی سازشوں سے اس وقت تک ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے جب تک ہم خود کو ان سازشوں کا حصہ نہ بننے دیں. ہم اپنی طاقت پہچان لیں اور دوسروں کی بچھائی ہوئی شطرنج کی بساط کا مہرہ ہم اپنے آپ کو نہ بننے دیں , صرف یہی ہے جو ہمیں کرنا ہے. ہمیں قرآن پاک کو پسِ پشت نہیں ڈالنا , ہمیں فقط ایک سجدہ درکار ہے جو ہمیں بقیہ تمام سجدوں سے نجات دے دے گا. ہمیں بھڑکنا نہیں ہے! ہماری قوم کو جذباتی سمجھ کر تیلی لگا دی جاتی ہے اور ہم مہرہ بن جاتے ہیں اور ہمیشہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں. جس پاکستان کے لیے لاکھوں جانیں اور عصمتیں قربان ہُوئیں , وہ سفر وہیں ختم نہیں ہوا . منزلِ مقصود ابھی تک نہیں ملی . روز لاشیں گِرتی ہیں , روز عصمتیں پامال ہوتی ہیں اِسی وطن کے لِیے , اِسی وطن میں , ہم ہی قتل ہو رہے ہیں اور ہم ہی قتل کر رہے ہیں. یہ سب تارکِ قرآن ہونے کا نتیجہ ہے. اگر ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تَو اور کوئی طاقت نہیں جو ہمیں کمزور کر سکے یا ہم میں پھوٹ ڈال سکے. بقول شاعر:
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گُل بھی ہے
انہی پابندیوں میں رہ کرحاصل آزادی کوتُو کرلے

یہ جشن تَو چند روزہ ہے , اس کے بعد وہی الراشی والمرتشی والا نظام صبح و شام شروع ہو جائے گا , وہی قتل و غارت گری , اغواء , کرپشن. ,عصمت دری.....ہم میں سے ہر کوئی ایک جِتنا نکھٹو اور کام چور ہے. ملازمین چاہتے ہیں کہ انہیں کام نہ کرنا پڑے اور تنخواہیں مِلتی رہیں, مالکان چاہتے ہیں کہ عوام کو نچوڑ کر سارا پیسہ کسی نہ کسی طرح اپنی ٹوکری میں ڈال لِیا جائے اور طلباء یہ چاہتے ہیں کہ انہیں پڑھنا نہ پڑے اور کسی نہ کسی طرح بس نمبر آتے رہیں. ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ , اپنے اپنے حصّے کی کرپشن کر رہا ہے. اگر ہم نظام بدل نہیں سکتے یا نظام بدلنے کی طاقت خود میں نہیں پاتے تَو کم از کم اِس نظام کا حصّہ نہ بنیں اور اگر اس نظام کا حصہ بننا ہمارے لیے ناگزیر ہے تَو کم از کم کسی ایسے شخص کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں جو اس نظام کا حصّہ نہ بننے کی حتی المقدور کوشش کر رہا ہو.
صدیوں پہلے کا ذکر ہے کہ دو انتہائی گہرے دوست ایک گاؤں میں رہتے تھے . ایک دوست چھے سال کا تھا اور دوسرا دَس سال کا. ایک دن وہ اپنے گاؤں سے دُور واقع ایک کنوئیں پر گئے. بڑا لڑکا حادثاتی طور پر کنوئیں میں گِر گیا. چھوٹا لڑکا بے چینی سے کبھی اِدھر جاتا اور کبھی اُدھر تاکہ کوئی بڑا آدمی نظر آئے اور اس سے مدد مانگی جا سکے , مگر اسے وہاں کوئی نہ ملا. بالآخر اس نے اپنی مدد آپ کے تحت کنویں میں ڈول ڈال کر رسّی کی مدد سے اپنے دوست کو اوپر کھینچ لِیا. جب وہ واپس گاؤں آئے اور انہوں نے یہ واقعہ اپنے گاؤں کے لوگوں کو سُنایا تَو کسی نے یقین نہ کِیا کہ ایک چھے سالہ بچے نے اتنی طاقت لگا کر دَس سالہ بچے کو اتنے گہرے کنوئیں میں سے نکال لیا. بالآخر ایک بزرگ نے ان بچوں کے سنائے گئے واقعے کی تائید کی اور کہا کہ چھوٹا بچہ دور دور تک گیا اور اسے وہاں کوئی نہ ملا اس کا فائدہ یہ ہُوا کہ اس وقت دُور دُور تک اُسے یہ کہنے والا کوئی نہیں تھا کہ ""تُم یہ نہیں کر سکتے!!"" اِسی لیے اس نے کر دکھایا. مگر آج ہماری قوم میں سے ہر فرد دوسرے فرد کا مورال پست کرنے میں لگا ہُوا ہے , حتی کہ قریب ترین لوگ ایک دوسرے کو بس یہی کہتے ہیں کہ "تم یہ نہیں کر سکتے". آپ کہئیے کہ "تم یہ کر سکتے ہو اور یہ تم ہی کروگے!!" تَو نتیجہ دیکھئیے. یہی وہ فقرہ تھا جو علامہ اقبال نے قائداعظم کو کہا تھا اور اس فقرے کے ثمر کے حصول کا جشن ہی تَو آج ہم منا رہے ہیں.
یہ میرا وطنِ عزیز ہی ہے جس کی بیٹی علم کی علامت قرار پاتی ہے اور جس کی ٹیچر کو "" ٹیچر آف دا یونیورس"' کا اعزاز ملتا ہے. میرے ملک کا باسی دنیا بھر کا او لیول کا ریکارڈ توڑتا ہے تَو میرے ملک کی دختر کم عمر ترین سوفٹ وئیر انجنئیر کا اعزاز پاتی ہے. NASA میں ایک بڑی تعداد میرے ملک کے سائنسدانون کی ہے اور دنیا کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ 'میرا ایدھی' چلاتا ہے. ہزاروں مصائب اور چیلنجز کے باوجود میرے وطن کے باسیوں نے ساری دنیا کو کر دِکھایا . لیکن مجھے اور آپ کو یہ دیکھنا ہے کہ کہیں ہم کسی اور اُبھرتے ہُوئے سِتارے کی راہ کا کانٹا تو نہیں بن رہے؟ کہیں ہم کسی اور ایدھی پر طعن و تشنیع کے نشتر تَو نہیں چلا رہے؟ کہیں ہم کسی کی ترقی کی راہ میں حائل ہونے کے مرتکب تَو نہیں. اگر ہم اور آپ خود کچھ نہیں کرنا چاہتے تَو مت کیجئیے مگر اپنے نیند میں بولنے کی عادت سے دوسروں کی راہ کھوٹی مت کیجئیے. صرف چند روزہ جشن منانا اور اس پہ ہزاروں خرچ کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا , آئیے ہم سب تنقیص کا حصہ بننے کی بجائے تعمیر کا حصہ بنیں اور اپنے اپنے حصے کی کم از کم ایک اینٹ ضرور رکھیں , آئیے میں اور آپ آج اپنی ایک بری عادت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں! کیونکہ پاکستان "ہم" سے ہے!
(مریم افتخار)
کیا بات ہے آپ کی. آپ ایک دانشور ہیں
 
میں بھی پاکستان ہوں
FB_IMG_1471198500786_zpszzdiybqz.jpg


:cry::cry::cry:
 

شزہ مغل

محفلین
مریم افتخار آپی یہی جواب ہیں میرے سوالوں کے اور یہی حل ہیں ہمارے مسائل کے۔
شکریہ یہ احساس دلانے کا کہ آپ اور میں ان آٹے میں نمک کے برابر پاکستانیوں کی تعداد میں ایک اور ایک گیارہ ہیں۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ایسے مضامین اردو کی کتب میں پڑھنے کو ملا کرتے ہیں جو کہ صرف پڑھنے کے لیے ہوتے ہیں ۔۔۔ ایسا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہم سب سنتے آئے ہیں ، میں نے ، گلی کی کسی چاچے مامے نے فلاں فلاں کام کیا یا کسی وزیر شزیر نے ۔۔۔۔۔ ایسا کام کیوں ہوا؟ اگر کوئی ان کی تہہ میں پہنچ جائے تو غلط ہی صیحح دکھے گا ،بظاہر صیحح دکھنے والا غلط ۔۔۔۔۔
 
Top