ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا
ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان بن گیا
اپنی حدیں ملی ہیں تو ادراکِ حق ہوا
عرفانِ ذات باعثِ ایمان بن گیا
ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز
جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا
خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں
اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا
کچھ بھی نہیں تھا کہنے کو شہر ِوصال میں
ہجرت ملی غزل کو تو دیوان بن گیا
پہچانئے مجھے میں وہی ہوں ظہیر، جو
خود کو مٹاکر آپ کی پہچان بن گیا
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۹
ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان بن گیا
اپنی حدیں ملی ہیں تو ادراکِ حق ہوا
عرفانِ ذات باعثِ ایمان بن گیا
ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز
جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا
خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں
اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا
کچھ بھی نہیں تھا کہنے کو شہر ِوصال میں
ہجرت ملی غزل کو تو دیوان بن گیا
پہچانئے مجھے میں وہی ہوں ظہیر، جو
خود کو مٹاکر آپ کی پہچان بن گیا
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۹