میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہر شعر ہی خوبصورت ۔ ۔ واہ واہ! ماشا اللہ


ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز
جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا

خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں
اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا

کیا بات ہے آپ کی!!
بہت نوازش، بہت شکریہ ، چھوٹی بہن !
آپ کو اشعار پسند آئے ۔ متشکرم ! اللّٰہ کریم آپ کو خوش رکھے ۔ شاد و آباد رہو ۔ پھلو پھولو!
پھولو سے مراد ہے ترقی کرو۔ معنی اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ پھر سے نہ ڈانٹ دیں۔ :grin:
 

صابرہ امین

لائبریرین
پھولو سے مراد ہے ترقی کرو۔ معنی اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ پھر سے نہ ڈانٹ دیں۔ :grin:
اللہ اللہ ۔ ۔بھئی آپ کو کیسے ڈانٹا جا سکتا ہے! :noxxx: وضاحت بھی کی تھی۔
بتائیے کیسے اس غلط فہمی کا ازالہ ممکن ہے ۔ :rose::rose::rose::rose::rose: اتنے پھول کافی ہوں گے یا کم ہیں ۔ ۔ :biggrin:
دل کچھ عجیب سا ہو جاتا ہے یہ پڑھ کر ۔ :embarrassed:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اللہ اللہ ۔ ۔بھئی آپ کو کیسے ڈانٹا جا سکتا ہے! :noxxx: وضاحت بھی کی تھی۔
بتائیے کیسے اس غلط فہمی کا ازالہ ممکن ہے ۔ :rose::rose::rose::rose::rose: اتنے پھول کافی ہوں گے یا کم ہیں ۔ ۔ :biggrin:
دل کچھ عجیب سا ہو جاتا ہے یہ پڑھ کر ۔ :embarrassed:
صابرہ امین ، بھئی میں تو مذاق کررہا تھا ۔ آپ کی وضاحت بھی بالکل سمجھ میں آگئی تھی ۔ یہ الگ بات کہ اس وضاحت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ آپ نے مراسلہ بھی خوش مذاقی اور خوش طبعی سے لکھا تھا ۔ یہ چھوٹی موٹی جھڑپیں تو چلتی رہتی ہیں ۔ ادبی مجلسوں میں یہ نوک جھونک نہ ہو تو پھر گفتگو بالکل ہی خشک اور بور سی محسوس ہونےلگتی ہے اور جلد ہی دل بیزار ہوجاتا ہے۔ اس لیے آپ بالکل بھی فکر نہ کریں ۔ بقول شاعر : ڈانٹوں سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم ۔
ارررے ۔ بھئی معذرت یہ ڈانٹ کا لفظ پھر نوکِ قلم پر آگیا ۔ آئندہ سے نہیں آئے گا۔ ڈانٹ کی جگہ ڈپٹ کا لفظ استعمال کروں گا۔ :D

پھولوں کا شکریہ ۔ پھولوں کے بجائے اگر گاجر کا حلوہ بھیج دیتیں تو نہ صرف ماضی بلکہ مستقبل کی بھی تمام خطائیں معاف ہوجاتیں ۔ ایک کلو حلوے میں آپ بخشی جاتیں ۔ :grin:

ایک بار پھر معذرت ۔ بخدا آپ کی دل آزاری مقصود نہیں تھی ۔ مذاق کیا تھا جو انٹرنیٹ کی بدولت حسبِ معمول خطا ہوگیا۔ امید ہے آپ اپنی کشادہ دلی سے کام لیتے ہوئے درگزر فرمائیں گی۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین ، بھئی میں تو مذاق کررہا تھا ۔ آپ کی وضاحت بھی بالکل سمجھ میں آگئی تھی ۔ یہ الگ بات کہ اس وضاحت کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ آپ نے مراسلہ بھی خوش مذاقی اور خوش طبعی سے لکھا تھا ۔ یہ چھوٹی موٹی جھڑپیں تو چلتی رہتی ہیں ۔ ادبی مجلسوں میں یہ نوک جھونک نہ ہو تو پھر گفتگو بالکل ہی خشک اور بور سی محسوس ہونےلگتی ہے اور جلد ہی دل بیزار ہوجاتا ہے۔ اس لیے آپ بالکل بھی فکر نہ کریں ۔ بقول شاعر : ڈانٹوں سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم ۔
ارررے ۔ بھئی معذرت یہ ڈانٹ کا لفظ پھر نوکِ قلم پر آگیا ۔ آئندہ سے نہیں آئے گا۔ ڈانٹ کی جگہ ڈپٹ کا لفظ استعمال کروں گا۔ :D

پھولوں کا شکریہ ۔ پھولوں کے بجائے اگر گاجر کا حلوہ بھیج دیتیں تو نہ صرف ماضی بلکہ مستقبل کی بھی تمام خطائیں معاف ہوجاتیں ۔ ایک کلو حلوے میں آپ بخشی جاتیں ۔ :grin:


ایک بار پھر معذرت ۔ بخدا آپ کی دل آزاری مقصود نہیں تھی ۔ مذاق کیا تھا جو انٹرنیٹ کی بدولت حسبِ معمول خطا ہوگیا۔ امید ہے آپ اپنی کشادہ دلی سے کام لیتے ہوئے درگزر فرمائیں گی۔
تقریب کچھ تو بہر جوابات چاہئیے ۔ ۔ :D
ایک کلو حلوہ !! بس ۔ ۔ بڑے سستے میں کام ہو گیا پھر تو! :grin: :giftwithabow::giftwithabow::giftwithabow: :giftwithabow::giftwithabow::giftwithabow::giftwithabow:یہ لیجئے سات کلو ایک ساتھ ۔ ۔ سارے جنم نمٹ گئے ۔ ۔ :biggrin:

آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں تو ہو گی کہ یہ سب محا ورتا مذاق میں کہا ہے ۔ :D :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تقریب کچھ تو بہر جوابات چاہئیے ۔ ۔ :D
ایک کلو حلوہ !! بس ۔ ۔ بڑے سستے میں کام ہو گیا پھر تو! :grin: :giftwithabow::giftwithabow::giftwithabow: :giftwithabow::giftwithabow::giftwithabow::giftwithabow:یہ لیجئے سات کلو ایک ساتھ ۔ ۔ سارے جنم نمٹ گئے ۔ ۔ :biggrin:

آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں تو ہو گی کہ یہ سب محا ورتا مذاق میں کہا ہے ۔ :D :D
جی نہیں ۔ صرف تین جنم نمٹے ۔ چار ڈبے بالکل خالی نکلے ہیں ۔ :D:D:D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت ہی عمدہ اور لاجواب غزل۔۔۔۔ اعلی۔۔۔۔
بہت شکریہ، نین بھائی ! پرانی غزل ہے ۔پرانا کاٹھ کباڑ کھنگال رہا تھا تو نظر آگئی۔ شرمندگی ہوئی کہ لوگوں کا شکریہ تک ادا نہیں کیا ۔ شاعری بھی کیا فضول کام ہے ۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اب یہ ڈبے مدیران نے چیکنگ کے دوران نہ چکھ لیے ہوں۔ ۔ :biggrin:
ہا ہا ہاہا ہا! ہنسادیا اس بات نے! :D

الزام مدیران تک جاپہنچا ہے اور یہ لوگ بات بات پر معطل کردیتے ہیں ۔ آپ تو مائی بشیراں کی آئی ڈی بناکر دوبارہ آجائیں گی ۔ میں کیا کروں گا۔ اتنی ساری غزلیں میری شائع ہونے سے رہ جائیں گی۔ سو میں تو اب چپ کرکے کھسکتا ہوں یہاں سے۔:censored:
 

یاسر شاہ

محفلین
میں بھی کسی کے درد کا درمان بن گیا
ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان بن گیا

اپنی حدیں ملی ہیں تو ادراکِ حق ہوا
عرفانِ ذات باعثِ ایمان بن گیا

ہمسر تھا جبرئیل کا جب تک تھا سجدہ ریز
جیسے ہی سر اٹھایا تو شیطان بن گیا

پہچانئے مجھے میں وہی ہوں ظہیر، جو
خود کو مٹاکر آپ کی پہچان بن گیا
واہ ۔عمدہ اشعار ماشاء اللہ۔

ظہیر بھائی ردیف " بن گیا" کی بجائے" ہو گیا" کیوں نہ رکھی ؟

خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں
اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا

یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے مصرع میں "خیرات" اور "کشکول " کا ذکر ہے دوسرے میں" گل" اور "گلدان" دونوں جوڑیوں کا آپس میں کوئی رعایت و ربط محسوس نہیں ہوتا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ۔عمدہ اشعار ماشاء اللہ۔
بہت شکریہ ، نوازش!
ظہیر بھائی ردیف " بن گیا" کی بجائے" ہو گیا" کیوں نہ رکھی ؟
کسی چیز کے ہونے اور بننے میں ایک عمومی فرق تو یہ ہے کہ ہونا غیر ارادی فعل ہے جبکہ بننے کے لفظ میں کوشش اور ارادہ نظر آتا ہے ۔ دوسرا فرق مدت یا وقت کا ہے۔ ہونا عموماً یکلخت ہوتا جبکہ بننے میں کچھ مدت درکار ہوتی ہے ۔ چنانچہ ادنیٰ سا آدمی تھا میں انسان ہوگیا کی نسبت انسان بن گیا میں ایک مدت پر محیط کوشش اور ارادہ نظر آتا ہے ۔ اسی طرح خود کو مٹا کرآپ کی پہچان ہوگیا اور آپ کی پہچان بن گیا میں بھی یہی فرق نظر آتا ہے ۔ وعلیٰ ھذا القیاس۔

خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں
اتنے کھلے گلاب کہ گلدان بن گیا

یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے مصرع میں "خیرات" اور "کشکول " کا ذکر ہے دوسرے میں" گل" اور "گلدان" دونوں جوڑیوں کا آپس میں کوئی رعایت و ربط محسوس نہیں ہوتا۔
یاسر ، شعر سمجھنے کی بات ہے ۔ اس شعر میں لفظی رعایت استعمال نہیں ہوئی بلکہ معنوی رعایت سے کام لیا ہے ۔ عطائے عشق سے پہلے میری ذات مانندِ کشکول تھی (یعنی میں دوسروں کو دینے والا نہیں دوسروں سے لینے والا تھا) ۔ عشق کی عنایت کے بعد میری ذات میں اتنے پھول کھلے کہ میں مانندِ گلدان ہوگیا ۔( اب میں کسی سے کچھ طلب نہیں کرتا بلکہ لوگوں کو رنگ اور خوشبو دیتا ہوں) ۔ یعنی عشق نے کشکول کو گلدان میں تبدیل کردیا !
اس شعر کا مرکزی خیال عشق ہے اور بیانیے کا سارا زور بھی اسی پر ہے : خیراتِ عشق کیا پڑی کشکولِ ذات میں ۔ اب یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ یہ عشق لیلیٰ مجنوں والا نہیں بلکہ ۔۔۔
اورعشق کی یہ دولت آدمی کو خودبخود نہیں ملتی بلکہ یہ خیرات اُس مالک کی طرف سے ہی عطا ہوتی ہے ۔
 
Top