یاسر شاہ
محفلین
محترمی و مکرمی سرور صاحب سے درخواست کی تھی کہ اپنے والد گرامی راز چاند پوری کی نظم :میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا: یہاں پیش کریں مگر انھوں نے ای میل کے ذریعے سے یہ معلومات دی کہ وہ سب کتابیں انڈیا کی ایک لائبریری کو وقف کر چکے ہیں لہٰذا یہ نظم ان کے پاس نہیں - انٹرنیٹ پہ ڈھونڈنے سے محترمی سرور صاحب کی ایک کتاب :باقیات راز : ملاحظے سے گزری مگر یہ نظم اس میں بھی نظر نہ آئی ،آخر اپنی سابقہ نوٹ بکس کو کھنگالا - ایک صفحے پہ یہ نظم لکھی نظر آئی جو اردو انجمن پہ سرور صاحب نے کبھی پیش کی تھی اور میری عادت رہی ہے کہ اچھی تحریریں اپنے پاس بھی نوٹ کر لیتا ہوں سو یہ عادت کارگر ثابت ہوئی اور یہ خوبصورت نظم ہمارے ذوق کی تسکین کا با عث ٹھہری -
مرحوم راز چاند پوری کو دعائے خیر میں یاد رکھیے گا اور ہو سکے تو تین قل بطور ایصال ثواب پڑھ دیجیے گا -الله مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین -
مرحوم راز چاند پوری کو دعائے خیر میں یاد رکھیے گا اور ہو سکے تو تین قل بطور ایصال ثواب پڑھ دیجیے گا -الله مرحوم کی مغفرت فرمائے آمین -
================
میںتجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
(راز چاند پوری)
میںتجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
(راز چاند پوری)
روشن تھا ماہِ کامل روشن تھا ہر ستارہ
فرشِ زمیں پہ یکسر تھا فرش چاندنی کا
برپا تھی بزمِ عشرت سامانِ عیش بھی تھا
میری نظر کو لیکن تھا انتظار تیرا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
فرشِ زمیں پہ یکسر تھا فرش چاندنی کا
برپا تھی بزمِ عشرت سامانِ عیش بھی تھا
میری نظر کو لیکن تھا انتظار تیرا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
مے خانۂ چمن میں برپا تھی محفلِ جم
رندانِ لم یزل تھے بیگانۂ دو عالم
لہرا رہا تھا سر پر خوش کیفیوں کا پرچم
پُرلطف اک سماں تھا از فرش تا ثُریّا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
رندانِ لم یزل تھے بیگانۂ دو عالم
لہرا رہا تھا سر پر خوش کیفیوں کا پرچم
پُرلطف اک سماں تھا از فرش تا ثُریّا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
چھائی ہوئی تھی یکسر ہر سمت اک خموشی
ہر شکل پر سراپا طاری تھی بے خودی سی
نرگس تھی محوِ حیرت سوسن کو چپ لگی تھی
سنبل کے گیسوؤں سے دوچار تھا نہ شانہ
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
کُنجوں میں سو رہے تھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
ساکت تھا پتا پتا خاموش سب تھے غنچے
مصروفِ خوابِ نوشیں مرغانِ خوش نوا تھے
ہاں اک چکور تنہا فریاد کر رہا تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
ہر شکل پر سراپا طاری تھی بے خودی سی
نرگس تھی محوِ حیرت سوسن کو چپ لگی تھی
سنبل کے گیسوؤں سے دوچار تھا نہ شانہ
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
کُنجوں میں سو رہے تھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے
ساکت تھا پتا پتا خاموش سب تھے غنچے
مصروفِ خوابِ نوشیں مرغانِ خوش نوا تھے
ہاں اک چکور تنہا فریاد کر رہا تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
ساغر بکف تھے لیکن تھا دورِ مے پرستی
حد سے بڑھا ہوا تھا رندوں کا جوشِ مستی
ہر بادہ خوار گویا تھا بے نیازِ ہستی
خود داریوں کا سودا سر سے نکل چکا تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
سینے میں میرے یکسر اک آگ سی لگی تھی
والله رات ساری بیتابیوں میں کاٹی
لب پر تھا نام تیرا دل میں تھی یاد تیری
تیرے بغیر مجھ کو تھا ہیچ ہر نظارہ
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
حد سے بڑھا ہوا تھا رندوں کا جوشِ مستی
ہر بادہ خوار گویا تھا بے نیازِ ہستی
خود داریوں کا سودا سر سے نکل چکا تھا
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا
سینے میں میرے یکسر اک آگ سی لگی تھی
والله رات ساری بیتابیوں میں کاٹی
لب پر تھا نام تیرا دل میں تھی یاد تیری
تیرے بغیر مجھ کو تھا ہیچ ہر نظارہ
میں تجھ کو ڈھونڈتا تھا افسوس تو نہ آیا