پہلے مصرعہ میں "تم" ہے،
چوتھے مصرعہ میں "تم " ہے۔
پانچویں مصرعہ میں " تری" ہے
چھٹے مصرعہ میں " تمہیں" ہے
ساتویں میں " تم" ہے۔
گیارہویں میں "تم" ہے
بارہویں مصرعہ میں "تم" ہے
تیرہویں مصرعہ میں پھر "تم"
کس کو بدلا جائے، پانچویں مصرعہ کو یا باقی تمام کو،فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔
ذرا اسے درست کریں، پھر بات کرتے ہیں۔
اور ہاں سند میں مومن کی غزل مت پیش کیجے گا کہ عیب عیب ہی ہوتا ہے۔ اس عیب کو کیا کہتے ہیں، نام تو بھول گیا ہے۔ خیر۔۔۔
اچھا اچھا اب سمجھ آ گی ہے نوید بھائی میں صبح سے آپ کو فون کر رہا تھا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے لیکن آپ کا فون ہی بند ہے خیر بہت شکریہ میں اس کو تبدیل کر لیتا ہوں
خرم! آپ بھی کہیں گے میں نظم کے پیچھے ہی پڑ گیا ہوں، لیکن جب تک مطمئن نہیں ہو جاتا ، لکھتا رہوں گا،
میں تم سے کہہ نہیںسکتا
جو میرے دل کے اندر ہے
("دل کے اندر" کہنا ضروری ہے کیا؟ "دل میں ہے" کہہ دینا کافی نہیں کیا؟ وزن کا مسئلہ دیکھ بھال کر!!)
وہ سب کچھ سہہ نہیں سکتا
میں تم سے کہہ نہیںسکتا
تمہاری یاد آتی ہے
مجھے آ کر ستاتی ہے
بہت یادیں رُلاتی ہیں
( تینوں مصرعے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ شائد آپ اپنی اس کیفیت پر زور دینا چاہتے ہیں لیکن یوں نہیں ، میرے بھائی! اتنا کہہ دینا بھی تو کافی تھا، تمہاری یاد آتی ہے، مجھے کتنا ستاتی/رلاتی ہے۔ میرے حساب سے تیسری لائن بے کار ہے)
تمہیں آنکھیں بُلاتی ہیں
کبھی تم لوٹ آؤ نا
( ویسے "کبھی" کی جگہ "تو پھر" لگا کر بھی ایک بار دیکھ لیں ، )
مرے دل میں سماؤنا
میں شب کو جاگ جاتا ہوں
("جاگ جانا"- وارث بھائی کیا کہتے ہیں آپ اس جاگ جانے پر)
ستاروں کو بتاتا ہوں
("ستاروں کو بتانا" یار یہ "بتانے" کی جگے کچھ اور لاؤ۔ )
میں تم بن رہ نہیں سکتا
مجھے تم سے محبت ہے
میں تم سے کہہ نہیں سکتا
بات یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کی آپ کی تخلیق میں کون سے ایسے الفاظ ہیں کہ جنہیں نکال دیا جائے ، تو نظم متاثر نہ ہو، کون سے الفاظ ایسے ہیں جن سے بہتر لفظ موجود ہے۔
باقی دیکھتے ہیں