میں جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا (اسلم کولسری)

میں‌جب اپنے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا

مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی
اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا

شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لی
بس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا

اس نے اکثر چاند چمکتی راتوں میں
میرے کندھے پر سر رکھ کر سوچا تھا

میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئیے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیے
اسلم اک جگنو کے پیچھے بھاگا تھا

(اسلم کولسری)​
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ عمران صاحب لازوال غزل شیئر کرنے کیلیے!

ایک استدعا آپ سے یہ کہ اگر شاعر کے نام کا ٹیگ بھی شامل کر دیا کریں اپنے موضوعات میں تو عین نوازش ہوگی!
 

مغزل

محفلین
شناور صاحب کیا کرتے ہوبھئی۔
رات ہی میں نے یہ غزل ایک دوست سے سنی، (ایک شعر تو عرصہ سے یادتھا)
میں نے سوچا یہاں پیش کروں ، احتیاطاَ تلا ش کیا تو موجود پایا، جواب نہیں صاحب ۔
کلام پر کیا کہوں کہ زبان گنگ ہے ، ہاں اتنی عمدہ پیش کش پر مبارکباد،
سدا خوش رہیں جناب۔
 
وارث صاحب بہت بہت شکریہ!
آئندہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔ انشاء اللہ

دل پاکستانی آپ کا بھی شکریہ!
کولسری صاحب کا تعارف جلد پیش کروں گا۔ آئندہ غزل کے ساتھ

اور م م مغل جی آپ کا بھی بہت بہت شکریہ کہ آپ نے غزل پسند فرمائی۔
آپ نے غزل سنی اور میں نے پوسٹ کر دی۔ اسی لیے تو کہتے ہیں
دل کو دل سے رہ ہوتی ہے
 
Top