نوید ناظم
محفلین
ہجومِ یاراں بھی ہو، میں کم تر نہیں سمجھتا
پہ دردِ تنہائی سے تو بڑھ کر نہیں سمجھتا
مجھے وہ اندر سے جان پائے یہ چاہتا ہوں
وہ جو مِری بات کو بھی اکثر نہیں سمجھتا
اگر مِرا غم نہ ہو تو میں بھی نہیں رہوں گا
میں جس سے قائم ہوں تُو وہ جوہر نہیں سمجھتا
خدا نما ہے مِرے لیے جو، اُسے گلہ ہے
کہ میں اُسے دوسروں سے ہٹ کر نہیں سمجھتا
چلو سمندر تو رشک سے دیکھتے ہیں اِن کو
وہ میرے اشکوں کو چاہے گوہر نہیں سمجھتا
یہ صرف میں ہوں کہ ہے مجھے اُس سے بھی توقع
وگرنہ دیوار کو کوئی در نہیں سمجھتا
ابھی تو خوش ہے وہ آئنے سے بدن کو لے کر
یہاں ہر اک ہاتھ میں ہے پتھر، نہیں سمجھتا
پہ دردِ تنہائی سے تو بڑھ کر نہیں سمجھتا
مجھے وہ اندر سے جان پائے یہ چاہتا ہوں
وہ جو مِری بات کو بھی اکثر نہیں سمجھتا
اگر مِرا غم نہ ہو تو میں بھی نہیں رہوں گا
میں جس سے قائم ہوں تُو وہ جوہر نہیں سمجھتا
خدا نما ہے مِرے لیے جو، اُسے گلہ ہے
کہ میں اُسے دوسروں سے ہٹ کر نہیں سمجھتا
چلو سمندر تو رشک سے دیکھتے ہیں اِن کو
وہ میرے اشکوں کو چاہے گوہر نہیں سمجھتا
یہ صرف میں ہوں کہ ہے مجھے اُس سے بھی توقع
وگرنہ دیوار کو کوئی در نہیں سمجھتا
ابھی تو خوش ہے وہ آئنے سے بدن کو لے کر
یہاں ہر اک ہاتھ میں ہے پتھر، نہیں سمجھتا