امیر مینائی میں رو رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے

میں رو رو کے آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
زمیں رہے نہ رہے آسماں رہے نہ رہے

رہے وہ جان جہاں یہ جہاں رہے نہ رہے
مکیں کی خیر ہو یارب مکاں رہے نہ رہے

ابھی مزار پر احباب فاتح پڑھ لیں
پھر اس قدر بھی ہمارا نشان رہے نہ رہے

خدا کے واسطے کلمہ بتوں کا پڑھ زاہد
پھر اختیار میں غافل زباں رہے نہ رہے

خزاں تو خیر سے گزری چمن میں بلبل کی
بہار آئی ہے اب آشیاں رہے نہ رہے

چلا تو ہوں پئے اظہار دردِ دل دیکھوں
حضورِ یار مجالِ بیاں رہے نہ رہے

امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہ لے
پھر التفات دلِ دوستاں رہے نہ رہے
 

الشفاء

لائبریرین
چلا تو ہوں پئے اظہار دردِ دل دیکھوں
حضورِ یار مجالِ بیاں رہے نہ رہے

واہ۔ واہ۔ بہت خوب انتخاب۔۔۔

تیسرے شعر کے دونوں مصرعوں میں ٹائپو محسوس ہوا۔۔۔:)
 

جاسمن

لائبریرین
واہ ۔ پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے۔ سید شہزاد ناصر بھائی۔ آپ کا انتخاب زبردست ہے۔
 
Top