قرۃالعین اعوان
لائبریرین
میں شجر ہوں شہرِملال کا میری تنہائیوں کو نہال کر
کبھی بھیج اپنی نوازشیں کسی جامِ ابر میں ڈھال کر
مجھے خار خار مسافتوں کی ستم گری نے تھکا دیا
مجھے منزلوں کا سراغ دے میرے حوصلوں کو بحال کر
میرے بےجواز وجود پر تیری رحمتوں کا جواز ہیں
وہ ندامتیں جنہیں آنکھ میں کبھی رکھ لیا ہے سنبھال کر
ہرے موسموں کے نقوش تو میرے لوح و ذہن سے مٹ چکے
یہ جو زرد رت کے ہیں سلسلے اب انہیں بھی خواب و خیال کر
کبھی بھیج اپنی نوازشیں کسی جامِ ابر میں ڈھال کر
مجھے خار خار مسافتوں کی ستم گری نے تھکا دیا
مجھے منزلوں کا سراغ دے میرے حوصلوں کو بحال کر
میرے بےجواز وجود پر تیری رحمتوں کا جواز ہیں
وہ ندامتیں جنہیں آنکھ میں کبھی رکھ لیا ہے سنبھال کر
ہرے موسموں کے نقوش تو میرے لوح و ذہن سے مٹ چکے
یہ جو زرد رت کے ہیں سلسلے اب انہیں بھی خواب و خیال کر