خرم شہزاد خرم
لائبریرین
میں نے کبھی بھی طالبان کو نا تو غلط کہا ہے اور نا کبھی خود کو ٹھیک کہا ہے کیوں کہ یہ باتیں میرے سے اوپر کی ہیں اور میں اپنے سے اوپر کی نہیں سوچتا لیکن آج یہ دھاگہ پڑھا تو کل رات کی ایک ملاقات یاد آگئی
کوئی ہے جو ان سوالوں کے جواب دے
کل رات کو میری ایک پھٹان سے ملاقات ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ رات کو دس بجے ہماری دوکان میں آیا اس کا کمپیوٹر خراب تھا ۔ میں نے اس کو کل کا وقت دیا کیوں کے 11 بجے دوکان بند کرتے ہیں لیکن اس کو جلدی تھی تو میں نے کہا چلو کر دیتا ہوں ایک دو گھنٹے لگے گے ۔ میں کام کرتا رہا اور وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ یہ سوات کا ہے
میں نے اس سے سوات کے حوالے سے گفتگو شروع کر دی میں نے اس سے پوچھا آپ سوات کے رہنے والے ہو آپ مجھے بتاؤ حکومت ٹھیک ہے یا طالبان۔ تو اس نے جواب دیا میں پہلے طالبان کے ساتھ کام کرتا تھا۔
میں ذہنی طور پر اس کو جواب کے لیے تیار ہو گیا مجھے معلوم تھا کہ کیا جواب آئے گا ۔ لیکن ہوا کچھ اس کے برعکس ۔
کہنے لگا حکومت کو یہ کام بہت پہلے کر دینا چاہے تھا اب ان کے پاس اتنا سونا ہے اور ان کی مدد باہر کے لوگ کر رہے ہیں اب بہت مشکل ہے
میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں یہاں چلے آئے کہنے لگا ایک حادثہ مجھے یہاں لے آیا۔ اس کی کہانی کچھ اس کی زبانی ۔
شروع میں شروع میں یہ لوگ مسجد میں اعلان کرواتے تھے کہ قرآن پاک کے لیے جنگ کرو اسلام کے لیے جنگ کرو ۔ میری بیوی نے مجھے کہا تم کیسے مسلمان ہو قران اور اسلام کے لیے جنگ نہیں کر سکتے میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور ٹرینگ لینی شروع کر دی بات بہت لمبی ہے لیکن مختصر کچھ یو کہ ایک دن ایک پولیس والے کو قتل کر دیا گیا سب کے سامنے ۔
مجھے بہت غصہ آیا میں اس کے بارے میں کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا ۔ خیر اس پولیس کے بارے میں میں تم کو بتاتا ہوں وہ کیسا انسان تھا میں نے زندگی میں کبھی بھی ایسا پولیس والا نہیں دیکھا تھا ۔ وہ پولیس والا عدالت کے باہر کھڑا ہوتا تھا جب اس کی ڈیوٹی ٹائم ختم ہوتا تو پھر وہ کچھ مچھلی خریدتا اور اس کو بازار میں جا کر بیچتا تھا یہ اس کا پاٹ ٹائم کام تھا وہ بہت غریب تھا اس کی فیملی بہت بڑی تھی اور وہ دو دو کام کر کے فیملی چلاتا تھا لیکن طالبان نے اس کو صرف اور صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ حکومت کی نوکری کرتا ہے میرا اسلام ایسا نہیں ہے پھر ایک دن میں ان کو بتائے بغیر چلا گیا اور اب سات مہنون سے یہاں رہ رہا ہوں میں جانتا ہوں طالبان کون ہیں۔ پہلے تو پھر بھی کچھ اچھے تھے لیکن اب تو بس وہی طالبان ہے جو ڈاکو ہے یا بندمعاش ہے ۔۔
یہ ساری باتیں نا تو مین اپنے پاس سے لکھ رہا ہوں اور نا ہی یہ کوئی جھوٹی کہانی ہے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں یہ ساری باتیں اس شخص کی ہیں ان باتوں میں سے مین نے کوئی بات بھی اپنے پاس سے نہیں لکھی اگر میں نے اپنے پاس سے لکھی ہو تو مجھ پر اللہ کی مار ہو آمین سب کہہ آمین
مجھے پتہ ہے اس تحریر پر بہت سے سوال اٹھے گے بہت اختلاف بھی ہو گا مجھ سے سوال بھی پوچھے جائے گے تو میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے کیوں کہ یہ سب میں نے اس شخص کی باتیں لکھی ہیں
کوئی ہے جو ان سوالوں کے جواب دے
کل رات کو میری ایک پھٹان سے ملاقات ہوئی۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ رات کو دس بجے ہماری دوکان میں آیا اس کا کمپیوٹر خراب تھا ۔ میں نے اس کو کل کا وقت دیا کیوں کے 11 بجے دوکان بند کرتے ہیں لیکن اس کو جلدی تھی تو میں نے کہا چلو کر دیتا ہوں ایک دو گھنٹے لگے گے ۔ میں کام کرتا رہا اور وہ مجھ سے باتیں کرتا رہا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ یہ سوات کا ہے
میں نے اس سے سوات کے حوالے سے گفتگو شروع کر دی میں نے اس سے پوچھا آپ سوات کے رہنے والے ہو آپ مجھے بتاؤ حکومت ٹھیک ہے یا طالبان۔ تو اس نے جواب دیا میں پہلے طالبان کے ساتھ کام کرتا تھا۔
میں ذہنی طور پر اس کو جواب کے لیے تیار ہو گیا مجھے معلوم تھا کہ کیا جواب آئے گا ۔ لیکن ہوا کچھ اس کے برعکس ۔
کہنے لگا حکومت کو یہ کام بہت پہلے کر دینا چاہے تھا اب ان کے پاس اتنا سونا ہے اور ان کی مدد باہر کے لوگ کر رہے ہیں اب بہت مشکل ہے
میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں یہاں چلے آئے کہنے لگا ایک حادثہ مجھے یہاں لے آیا۔ اس کی کہانی کچھ اس کی زبانی ۔
شروع میں شروع میں یہ لوگ مسجد میں اعلان کرواتے تھے کہ قرآن پاک کے لیے جنگ کرو اسلام کے لیے جنگ کرو ۔ میری بیوی نے مجھے کہا تم کیسے مسلمان ہو قران اور اسلام کے لیے جنگ نہیں کر سکتے میں ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور ٹرینگ لینی شروع کر دی بات بہت لمبی ہے لیکن مختصر کچھ یو کہ ایک دن ایک پولیس والے کو قتل کر دیا گیا سب کے سامنے ۔
مجھے بہت غصہ آیا میں اس کے بارے میں کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا ۔ خیر اس پولیس کے بارے میں میں تم کو بتاتا ہوں وہ کیسا انسان تھا میں نے زندگی میں کبھی بھی ایسا پولیس والا نہیں دیکھا تھا ۔ وہ پولیس والا عدالت کے باہر کھڑا ہوتا تھا جب اس کی ڈیوٹی ٹائم ختم ہوتا تو پھر وہ کچھ مچھلی خریدتا اور اس کو بازار میں جا کر بیچتا تھا یہ اس کا پاٹ ٹائم کام تھا وہ بہت غریب تھا اس کی فیملی بہت بڑی تھی اور وہ دو دو کام کر کے فیملی چلاتا تھا لیکن طالبان نے اس کو صرف اور صرف اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ حکومت کی نوکری کرتا ہے میرا اسلام ایسا نہیں ہے پھر ایک دن میں ان کو بتائے بغیر چلا گیا اور اب سات مہنون سے یہاں رہ رہا ہوں میں جانتا ہوں طالبان کون ہیں۔ پہلے تو پھر بھی کچھ اچھے تھے لیکن اب تو بس وہی طالبان ہے جو ڈاکو ہے یا بندمعاش ہے ۔۔
یہ ساری باتیں نا تو مین اپنے پاس سے لکھ رہا ہوں اور نا ہی یہ کوئی جھوٹی کہانی ہے میں خدا کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں یہ ساری باتیں اس شخص کی ہیں ان باتوں میں سے مین نے کوئی بات بھی اپنے پاس سے نہیں لکھی اگر میں نے اپنے پاس سے لکھی ہو تو مجھ پر اللہ کی مار ہو آمین سب کہہ آمین
مجھے پتہ ہے اس تحریر پر بہت سے سوال اٹھے گے بہت اختلاف بھی ہو گا مجھ سے سوال بھی پوچھے جائے گے تو میرے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہے کیوں کہ یہ سب میں نے اس شخص کی باتیں لکھی ہیں