اگر ھم غور کریں ! بعض باتیں ہنسی سے شروع ھوتی ھیں اور آنسووں پہ ختم ھوتی ھیں مگر زندگی تو شروع ھی رونے سے ھوتی ھے اور رونے پہ ختم ھوتی ھے ،، انسان پیدا ھوتا ھے تو ایک چیخ کے ساتھ اعلان کرتا ھے کہ " لو جی اسی وی آگئے جے " پھر ساری زندگی ھنسی کی تلاش میں گزار دیتا ھے ،، اپنی اس تلاش میں کئ لوگوں کو رلاتا ، تڑپاتا ھے ، ان کی تمنائیں پاؤں تلے روندتا چلا جاتا ھے ،، ہنسی کئ بار اس کے پاس سے گزر جاتی ھے مگر وہ انجانے میں ہنسی کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ھے ،، منزل پا کر بھی آگے نکل جاتا ھے یوں بنی اسرائیل کی طرح صحراءِ تیہہ کا قیدی بن جاتا ھے ! وہ ہنسی کو باھر ڈھونڈتا ھےحالانکہ وہ اس کے اپنے اندر رکھی ھوئی ھے ،، اپنے قلب کو رب کی رضا کے ساتھ چھوڑ دے اور اپنے فیصلے رب پر چھوڑ دے ،،پھر ان پر مطمئن ھو جائے اور اعتراض چھوڑ دے ،، گاڑی میں پیٹرول پیچھے ٹینکی میں ڈالا جاتا ھے مگر وہ کام آگے آ کر کرتا ھے،اس کا کام پیچھے نہیں آگے ھے ،، آگے آئے اور پلگ کے ساتھ سپارک کرے جلے تو طاقت پیدا کرے ! خوشیاں بانٹ نے سے ملتی ھیں ڈھونڈ نے سے کبھی نہیں ملتی ،، کسی کو خوشی دو گے وہ خوشی اس کے قلب میں پیدا ھو گی تو نوٹس آپ کے قلب کو دے گی ،، مگر یہ بات تب سمجھ میں آتی ھے جب انسان سب سے محبت کرے ،، ماں جو اولاد سے محبت کرتی ھے ،، اولاد کو کھاتے دیکھتی ھے تو اس کا جی بھرتا ھے ، اسی لئے وہ چن چن کر اولاد کے آگے رکھتی ھے ،، ماں ماں ھے چاھے وہ مرغی ھو یا بلی ،، چن چن کر بچوں کے آگے رکھنا اس کی خاص کامن صفت ھے ،،بس چن چن کر کسی کے آگے خوشیاں رکھنا خوشیاں دیتا ھے ،کیونکہ خوشی ایک احساس ھے ٹھوس جنس نہیں ، جس طرح غم ایک احساس ھے کوئی ٹھوس جنس نہیں ! بس خوشی کو محسوس کرنا سیکھیں تو وہ " چہاہ " کر کے کہیں سے بھی آ نکلتی ھے !
ایک صاحب دفتر پہنچے تو ان کے چہرے پہ مسکان تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ مسکان اپنے شیڈ بدلتی تھی !
ساتھیوں نے پوچھا صاحب آج کیا کھا لیا ھے ؟ کہنے لگے یار کمال ھو گیا ،، اچھا بھلا تیار ھو کر نکلنے لگا وقت کم تھا گھر والی سے کہا چائے پکڑا دو گاڑی میں ھی پی لونگا ،، چائے زمین پہ رکھ کر جوتے کے تسمے باندھنے لگا تو منا دوڑتا ھوا آیا اور میرے گلے سے لٹک گیا اور ساتھ پاؤں مار کر چاھے گرا دی ، پھر جب اسے احساس ھوا کہ شاید غلط ھو گیا تو نیچے بیٹھ کر میری ٹائی جو باندھنے کے لئے لا کر کرسی پہ رکھی تھی اٹھا کر چائے صاف کرنے لگ گیا ،، ماں نے دور سے ڈانٹا تو وہ سمجھا شاید باپ کی چیز استعمال کرنے سے ماں جیلس ھو رھی ھے ،جھٹ میری ٹائی چھوڑ دوڑ کر ماں کا دوپٹہ لے کر صاف کرنے لگ گیا ، اب ماں اسے مارنے کو لپکی تو میرے ھی گلے سے لٹک کر بابا بابا کرنے لگ گیا کہ مجھے بچاؤ ،، یہ سوچے بغیر کہ اس نے بابا کی ٹائی کا بھی بیڑا غرق کر دیا ھے ،، اس کی اس سادگی اور معصومیت کو دیکھ کر میں نے اسے لپٹا لیا اور ماں کو کوشش کے باوجود ھاتھ بھی نہیں لگانے دیا ، وہ تو میرے ساتھ دفتر آنے کی ضد کر رھا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اکیلے میں ماں اس سے بدلا لے گی،،میں یہی سوچ کر مسکرا رھا ھوں کہ اگر وہ دفتر آ جاتا تو آپ لوگوں کی خوب خدمت کرتا ،،کبھی مس نائلہ کی تیار کردہ رپورٹ سے کولر کا گرا پانی صاف کر رھا ھوتا تو کہیں چاچا کریموں کی ٹوپی سے ٹیبل صاف کر رھا ھوتا ! یار یہ بچے آئیڈیاز کہاں سے لیتے ھیں ؟ اس کی ان باتوں سے پورے دفتر کا ماحول تبدیل ھو گیا اور ھر شخص کوشش کرنے لگ گیا کہ وہ بھی اپنے اپنے بچے کی شرارت شیئر کر کے قہقہہ لگائے !
دوسرے صاحب غصے سے آگ بگولہ ھوئے "پھاں پھاں " کرتے دفتر داخل ھوئے اور ھر ایک کو سینگوں پہ اٹھا لیا ،، دس بچے ایک دوست نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا ،یار آج کس چیز نے کاٹ لیا تمہیں ؟ ھر ایک کے گلے پڑ رھے ھو ،، بس صاحب فوراً اونچا اونچا شروع ھو گئے ھونا کیا تھا وہ میرے گھر میں ایک خبیث پیدا ھو گیا ھے ، اس نے قسم کھائی ھوئی ھے کہ میری ھر چیز برباد کرے گا ،،شاید وہ میرے کسی گناہ کی سزا ھے ،،اچھا بھلا موڈ تھا دفتر کے لئے نکلنے لگا تو ھاتھ کی چائے ٹیبل پہ رکھی تھی کہ بگولے کی طرح آیا اور چائے گرا دی جس سے کپڑے بھی خراب ھو گئے ،، میں نے ذرا سا ڈانٹا تو ادھر سے اس کی ماں دھاڑتی ھوئی نکل آئی ،، اس سے منہ ماری ھو گئ ،کپڑے تبدیل کرنے میں دیر ھو گئ موڈ ویسے بھی آف تھا تو رستے میں رش کی وجہ سے ایک گاڑی والے تو تکار ھوگئ ، آج کا سارا دن اس چھوٹے سے شیطان کی وجہ سے برباد ھو گیا ،، پورے دفتر میں سوگ کی کیفیت طاری تھی ،، حالانکہ ویسا ھی واقعہ اوپر والے صاحب کے ساتھ بھی گزرا تھا مگر انہوں نے اسے دوسری طرح محسوس کیا !
لفظ تو علم ھی سکھاتے ھیں - آدمی ، آدمی بناتے ھیں !