میں علی ہوں اور دبئی میں رہتا ہوں

قیصرانی

لائبریرین
مال تمہاری مگر وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں
--------------------------------------------------

از:محمد سلیم
جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں لوگ کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی جا رہا تھا۔

میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔ ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ، اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو دل چاہ رہا ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔

ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔ ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت نا لگا اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔

پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔ باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔ میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ایک عورت یہ بات سُنتے ہی ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔ ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔

کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں سوشل سیکیوریٹی محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔ صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس مارک کا جرما نہ عائد کر۔ اس دوران ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔ میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس مارک جرمانہ ادا کیا اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔

آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا تم کھا سکتے ہو۔ تمہارے پیسے تمہاری ملکیت ضرور ہیں مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح ضائع کرتے پھرو۔

بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔ ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے ہمیں کہی تھیں۔ مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں تو خود کفیل نہیں ہے مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ نتیجتاً بہت سا ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے جس کے حصول کیلیئے کئی دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی ان بری عادتوں کو تبدیل کریں اور نعمتوں کا اس طرح ضیاع اور انکا اس طرح سے کفران نا کریں۔

ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔

جی ہاں! آپکا مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔
مغرب میں یہ بات اچھنبے کی ہے کہ جرمانہ موقع پر وصول ہوا۔ عموماً موقع پر جرمانہ کبھی وصول نہیں کیا جاتا اور اگر کسی وجہ سے آفر بھی کی جائے کہ ابھی ادا کر دیتے ہیں (کہ ملک سے باہر جانا ہے یا کچھ اور) تو الٹا رشوت دینے کی کوشش کا الزام بھی لگ جاتا ہے :)
 

x boy

محفلین
مغرب میں یہ بات اچھنبے کی ہے کہ جرمانہ موقع پر وصول ہوا۔ عموماً موقع پر جرمانہ کبھی وصول نہیں کیا جاتا اور اگر کسی وجہ سے آفر بھی کی جائے کہ ابھی ادا کر دیتے ہیں (کہ ملک سے باہر جانا ہے یا کچھ اور) تو الٹا رشوت دینے کی کوشش کا الزام بھی لگ جاتا ہے :)
یہ بات تو بالکل درست فرمایا،
دنیا میں کہیں بھی ٹکٹ کاٹنے والا یعنی چالان کرنے والا چالان فیس وصول نہیں کرتا ہے
 

x boy

محفلین
اگر ھم غور کریں ! بعض باتیں ہنسی سے شروع ھوتی ھیں اور آنسووں پہ ختم ھوتی ھیں مگر زندگی تو شروع ھی رونے سے ھوتی ھے اور رونے پہ ختم ھوتی ھے ،، انسان پیدا ھوتا ھے تو ایک چیخ کے ساتھ اعلان کرتا ھے کہ " لو جی اسی وی آگئے جے " پھر ساری زندگی ھنسی کی تلاش میں گزار دیتا ھے ،، اپنی اس تلاش میں کئ لوگوں کو رلاتا ، تڑپاتا ھے ، ان کی تمنائیں پاؤں تلے روندتا چلا جاتا ھے ،، ہنسی کئ بار اس کے پاس سے گزر جاتی ھے مگر وہ انجانے میں ہنسی کو پہچاننے سے انکار کر دیتا ھے ،، منزل پا کر بھی آگے نکل جاتا ھے یوں بنی اسرائیل کی طرح صحراءِ تیہہ کا قیدی بن جاتا ھے ! وہ ہنسی کو باھر ڈھونڈتا ھےحالانکہ وہ اس کے اپنے اندر رکھی ھوئی ھے ،، اپنے قلب کو رب کی رضا کے ساتھ چھوڑ دے اور اپنے فیصلے رب پر چھوڑ دے ،،پھر ان پر مطمئن ھو جائے اور اعتراض چھوڑ دے ،، گاڑی میں پیٹرول پیچھے ٹینکی میں ڈالا جاتا ھے مگر وہ کام آگے آ کر کرتا ھے،اس کا کام پیچھے نہیں آگے ھے ،، آگے آئے اور پلگ کے ساتھ سپارک کرے جلے تو طاقت پیدا کرے ! خوشیاں بانٹ نے سے ملتی ھیں ڈھونڈ نے سے کبھی نہیں ملتی ،، کسی کو خوشی دو گے وہ خوشی اس کے قلب میں پیدا ھو گی تو نوٹس آپ کے قلب کو دے گی ،، مگر یہ بات تب سمجھ میں آتی ھے جب انسان سب سے محبت کرے ،، ماں جو اولاد سے محبت کرتی ھے ،، اولاد کو کھاتے دیکھتی ھے تو اس کا جی بھرتا ھے ، اسی لئے وہ چن چن کر اولاد کے آگے رکھتی ھے ،، ماں ماں ھے چاھے وہ مرغی ھو یا بلی ،، چن چن کر بچوں کے آگے رکھنا اس کی خاص کامن صفت ھے ،،بس چن چن کر کسی کے آگے خوشیاں رکھنا خوشیاں دیتا ھے ،کیونکہ خوشی ایک احساس ھے ٹھوس جنس نہیں ، جس طرح غم ایک احساس ھے کوئی ٹھوس جنس نہیں ! بس خوشی کو محسوس کرنا سیکھیں تو وہ " چہاہ " کر کے کہیں سے بھی آ نکلتی ھے !
ایک صاحب دفتر پہنچے تو ان کے چہرے پہ مسکان تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہ مسکان اپنے شیڈ بدلتی تھی !
ساتھیوں نے پوچھا صاحب آج کیا کھا لیا ھے ؟ کہنے لگے یار کمال ھو گیا ،، اچھا بھلا تیار ھو کر نکلنے لگا وقت کم تھا گھر والی سے کہا چائے پکڑا دو گاڑی میں ھی پی لونگا ،، چائے زمین پہ رکھ کر جوتے کے تسمے باندھنے لگا تو منا دوڑتا ھوا آیا اور میرے گلے سے لٹک گیا اور ساتھ پاؤں مار کر چاھے گرا دی ، پھر جب اسے احساس ھوا کہ شاید غلط ھو گیا تو نیچے بیٹھ کر میری ٹائی جو باندھنے کے لئے لا کر کرسی پہ رکھی تھی اٹھا کر چائے صاف کرنے لگ گیا ،، ماں نے دور سے ڈانٹا تو وہ سمجھا شاید باپ کی چیز استعمال کرنے سے ماں جیلس ھو رھی ھے ،جھٹ میری ٹائی چھوڑ دوڑ کر ماں کا دوپٹہ لے کر صاف کرنے لگ گیا ، اب ماں اسے مارنے کو لپکی تو میرے ھی گلے سے لٹک کر بابا بابا کرنے لگ گیا کہ مجھے بچاؤ ،، یہ سوچے بغیر کہ اس نے بابا کی ٹائی کا بھی بیڑا غرق کر دیا ھے ،، اس کی اس سادگی اور معصومیت کو دیکھ کر میں نے اسے لپٹا لیا اور ماں کو کوشش کے باوجود ھاتھ بھی نہیں لگانے دیا ، وہ تو میرے ساتھ دفتر آنے کی ضد کر رھا تھا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اکیلے میں ماں اس سے بدلا لے گی،،میں یہی سوچ کر مسکرا رھا ھوں کہ اگر وہ دفتر آ جاتا تو آپ لوگوں کی خوب خدمت کرتا ،،کبھی مس نائلہ کی تیار کردہ رپورٹ سے کولر کا گرا پانی صاف کر رھا ھوتا تو کہیں چاچا کریموں کی ٹوپی سے ٹیبل صاف کر رھا ھوتا ! یار یہ بچے آئیڈیاز کہاں سے لیتے ھیں ؟ اس کی ان باتوں سے پورے دفتر کا ماحول تبدیل ھو گیا اور ھر شخص کوشش کرنے لگ گیا کہ وہ بھی اپنے اپنے بچے کی شرارت شیئر کر کے قہقہہ لگائے !

دوسرے صاحب غصے سے آگ بگولہ ھوئے "پھاں پھاں " کرتے دفتر داخل ھوئے اور ھر ایک کو سینگوں پہ اٹھا لیا ،، دس بچے ایک دوست نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا ،یار آج کس چیز نے کاٹ لیا تمہیں ؟ ھر ایک کے گلے پڑ رھے ھو ،، بس صاحب فوراً اونچا اونچا شروع ھو گئے ھونا کیا تھا وہ میرے گھر میں ایک خبیث پیدا ھو گیا ھے ، اس نے قسم کھائی ھوئی ھے کہ میری ھر چیز برباد کرے گا ،،شاید وہ میرے کسی گناہ کی سزا ھے ،،اچھا بھلا موڈ تھا دفتر کے لئے نکلنے لگا تو ھاتھ کی چائے ٹیبل پہ رکھی تھی کہ بگولے کی طرح آیا اور چائے گرا دی جس سے کپڑے بھی خراب ھو گئے ،، میں نے ذرا سا ڈانٹا تو ادھر سے اس کی ماں دھاڑتی ھوئی نکل آئی ،، اس سے منہ ماری ھو گئ ،کپڑے تبدیل کرنے میں دیر ھو گئ موڈ ویسے بھی آف تھا تو رستے میں رش کی وجہ سے ایک گاڑی والے تو تکار ھوگئ ، آج کا سارا دن اس چھوٹے سے شیطان کی وجہ سے برباد ھو گیا ،، پورے دفتر میں سوگ کی کیفیت طاری تھی ،، حالانکہ ویسا ھی واقعہ اوپر والے صاحب کے ساتھ بھی گزرا تھا مگر انہوں نے اسے دوسری طرح محسوس کیا !

لفظ تو علم ھی سکھاتے ھیں - آدمی ، آدمی بناتے ھیں !
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
10557192_862610690434358_6738516422897862707_n.jpg
 

دلاور خان

لائبریرین
مال تمہاری مگر وسائل معاشرے کی ملکیت ہوا کرتے ہیں
--------------------------------------------------

از:محمد سلیم
جرمنی ایک صنعتی ملک ہے جہاں دُنیا کی بہترین مصنوعات اور بڑے بڑے برانڈز مثلاً مرسیڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو اور سیمنز پروڈکٹس بنتے ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال ہونے والے پمپ تو محض اس ملک کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بنتے ہیں۔ اس طرح کے ترقی یافتہ ملک کے بارے میں کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہاں لوگ کس طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہونگے، کم از کم میرا خیال تو اُس وقت یہی تھا جب میں پہلی بار اپنی تعلیم کے سلسلے میں سعودیہ سے جرمنی جا رہا تھا۔

میں جس وقت ہمبرگ پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود میرے دوست میرے استقبال کیلئے ایک ریسٹورنٹ میں دعوت کا پروگرام بنا چکے تھے۔ جس وقت ہم ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے اس وقت وہاں گاہک نا ہونے کے برابر اور اکثر میزیں خالی نظر آ رہی تھیں۔ ہمیں جو میز دی گئی اس کے اطراف میں ایک میز پر نوجوان میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ، اُن کے سامنے صرف ایک ڈش میں کھانا رکھا ہوا تھا جس کو وہ اپنی اپنی پلیٹ میں ڈال کر کھا رہے اور شاید دونوں کے سامنے ایک ایک گلاس جوس بھی رکھا ہوا نظر آ رہا تھا جس سے میں نے یہی اندازہ لگایا کہ بیچاروں کا رومانوی ماحول میں بیٹھ کر کھانا کھانے کوتو دل چاہ رہا ہوگا مگر جیب زیادہ اجازت نا دیتی ہو گی۔ ریسٹورنٹ میں ان کے علاوہ کچھ عمر رسیدہ خواتین نظر آ رہی تھیں۔

ہم سب کی بھوک اپنے عروج پر تھی اور اسی بھوک کا حساب لگاتے ہوئے میرے دوستوں نے کھانے کا فراخدلی سے آرڈر لکھوایا۔ ریسٹورنٹ میں گاہکوں کے نا ہونے کی وجہ سے ہمارا کھانے لگنے میں زیادہ وقت نا لگا اور ہم نے بھی کھانے میں خیر سے کوئی خاص دیر نا لگائی۔

پیسے ادا کر کے جب ہم جانے کیلئے اُٹھے تو ہماری پلیٹوں میں کم از کم ایک تہائی کھانا ابھی بھی بچا ہوا تھا۔ باہر جانے کیلئے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے ریسٹورنٹ میں موجود اُن بڑھیاؤں نے ہمیں آوازیں دینا شروع کر دیں۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ ساری اپنی جگہ کھڑی ہو کر زور زور سے باتیں کر رہی تھیں اور ہم نے یہی اندازہ لگایا کہ اُنکا موضوع ہمارا ضرورت سے زیادہ کھانا طلب کرنا اور اس طرح بچا کر ضائع کرتے ہوئے جانا تھا۔ میرے دوست نے جواباً اُنہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ آرڈر کیا تھا اُس کے پیسے ادا کر دیئے ہیں اور تمہاری اس پریشانی اور ایسے معاملے میں جس کا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا میں دخل اندازی کرنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ایک عورت یہ بات سُنتے ہی ٹیلیفون کی طرف لپکی اور کسی کو فوراً وہاں آنے کو کہا۔ ایسی صورتحال میں ہمارا وہاں سے جانا یا کھسک جانا ہمارے لیئے مزید مسائل کھڑے کر سکتا تھا اس لئے ہم وہیں ٹھہرے رہے۔

کچھ ہی دیر میں وہاں ایک باوردی شخص آیا جس نے اپنا تعارف ہمیں سوشل سیکیوریٹی محکمہ کے ایک افسر کی حیثیت سے کرایا۔ صورتحال کو دیکھ اور سن کر اُس نے ہم پر پچاس مارک کا جرما نہ عائد کر۔ اس دوران ہم چپ چاپ کھڑے رہے۔ میرے دوست نے آفیسر سے معذرت کرتے ہوئے پچاس مارک جرمانہ ادا کیا اور اس نے ایک رسید بنا کر میرے دوست کو تھما دی۔

آفیسر نے جرمانہ وصول کرنے کے بعد شدید لہجے میں ہمیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ : آئندہ جب بھی کھانا طلب کرو تو اُتنا ہی منگواؤ جتنا تم کھا سکتے ہو۔ تمہارے پیسے تمہاری ملکیت ضرور ہیں مگر وسائل معاشرے کی امانت ہیں۔ اس دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہیں جو غذائی کمی کا شکار ہیں۔ تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم کھانے پینے کی اشیاء کو اس طرح ضائع کرتے پھرو۔

بے عزتی کے احساس اور شرمساری سے ہمارے چہرے سرخ ہورہے تھے۔ ہمارے پاس اُس آفیسر کی بات کو سننے اور اس سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ذہنی طور پر ہر اُس بات کے قائل ہو چکے تھے جو اُس نے ہمیں کہی تھیں۔ مگر کیا کریں ہم لوگ ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جو وسائل کے معاملے میں تو خود کفیل نہیں ہے مگر ہماری عادتیں کچھ اس طرح کی بن گئی ہیں کہ ہمارے پاس کوئی مہمان آ جائے تو اپنا منہ رکھنے کیلئے یا اپنی جھوٹی عزت یا خود ساختہ اور فرسودہ روایات کی پاسداری خاطر دستر خوان پر کھانے کا ڈھیر لگا دیں گے۔ نتیجتاً بہت سا ایسا کھانا کوڑے کے ڈھیر کی نظر ہوجاتا ہے جس کے حصول کیلیئے کئی دوسرے ترس رہے ہوتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی ان بری عادتوں کو تبدیل کریں اور نعمتوں کا اس طرح ضیاع اور انکا اس طرح سے کفران نا کریں۔

ریسٹورنٹ سے باہر نکل کر میرے دوست نے سامنے کی ایک دکان سے جرمانے کی رسید کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہم سب کو اس واقعہ کی یادگار کے طور پر دیں تاکہ ہم گھر جا کر اسے نمایاں طور پر کہیں آویزاں کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ آئندہ کبھی بھی اس طرح کا اسراف نہیں کریں گے۔

جی ہاں! آپکا مال یقیناً آپکی مِلکیت ہے مگر وسائل سارے معاشرے کیلئے ہیں۔


یہ میں پہلے بھی کہیں پڑھ چکا ہوں۔
بس اس میں نوجوان جوڑے کی جگہ ایک اڈھیڑ عمر یا بوڑھے جوڑے کا تذکرہ تھا اور اس میں جو کام ادھیڑ عمر خواتین نے کیا وہ کام کھانا کھانے والے جوڑے نے ادا کیا تھا۔

اب مجھے لگ رہا ہے کہ یہ شاید من گھڑت کہانی ہے۔
 

x boy

محفلین
یہ میں پہلے بھی کہیں پڑھ چکا ہوں۔
بس اس میں نوجوان جوڑے کی جگہ ایک اڈھیڑ عمر یا بوڑھے جوڑے کا تذکرہ تھا اور اس میں جو کام ادھیڑ عمر خواتین نے کیا وہ کام کھانا کھانے والے جوڑے نے ادا کیا تھا۔

اب مجھے لگ رہا ہے کہ یہ شاید من گھڑت کہانی ہے۔
ہو بھی سکتا ہے
لیکن جرمنی وہ ملک ہے جہاں کھانا ضایع کرنا جرم ہے
 
Top