یاسر شاہ
محفلین
میں ماں ہوں، اور مری قسمت جدائی ہے
نظم
"بہت سردی ہے ۔۔۔ مما
ابھی کچُھ دیر
میرا ہاتھ مت چھوڑیں"
زمستاں کی ہوا سے کپکپاتا
میرے سینے سے لگا
تُو کہہ رہا تھا
زیادہ دن نہیں گذرے
کہ میری گود کی گرمی
تجھے آرام دیتی تھی
گلے میں میرے بانہیں ڈال کر تو اس طرح سوتا
کہ اکثر ساری ساری رات میری
ایک کروٹ میں گزر جاتی
مرے دامن کو پکڑے
گھر میں تتلی کی طرح سے گھوُمتا پھرتا
مگر پھر جلد ہی تجھ کو
پرندوں اور پھولُوں
اور پھر ہمجولویوں کے پاس سے ایسا بلاوا آ گیا
جس کو پا کر
مری اُنگلی چھُڑا کر
تو ہجومِ رنگ میں خوشبو کی صورت مِل گیا
پھر اس کے بعد خوابوں سے بھرا بستہ لیے
اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تُو
جہاں پر رنگ اور پھر حرف اور پھر ہندسے
اور سو طرح کے کھیل تیرے منتظر تھے
دِل لبُھاتے تھے
تِرے استاد مجھ سے معتبر تھے
دوست مجھ سے خوُب تر تھے
مجھے معلوم ہے
میں تُجھ سے پیچھے رہ گئی ہوں
سفر اب جتنا باقی ہے
وہ بس پسپائی کا ہی ہے
تری دنیا میں اب ہر پل
نئے لوگوں کی آمد ہے
میں بے حد خامشی سے
اُن کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
تِرا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں
زیادہ دِن نہ گذریں گے
مرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
تجُھے کافی نہیں ہو گی
کوئی خوش لمس دستِ یاسمیں آ کر
گلابی رنگ کی حدّت
تیرے ہاتھوں میں سمو دے گا
مرا دِل تجھ کو کھو دے گا
میں باقی عمر
تیرا راستہ تکتی رہوں گی
میں جانتی ہوں
میں ماں ہوں۔۔۔۔
اور مری قسمت جدائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
نظم
"بہت سردی ہے ۔۔۔ مما
ابھی کچُھ دیر
میرا ہاتھ مت چھوڑیں"
زمستاں کی ہوا سے کپکپاتا
میرے سینے سے لگا
تُو کہہ رہا تھا
زیادہ دن نہیں گذرے
کہ میری گود کی گرمی
تجھے آرام دیتی تھی
گلے میں میرے بانہیں ڈال کر تو اس طرح سوتا
کہ اکثر ساری ساری رات میری
ایک کروٹ میں گزر جاتی
مرے دامن کو پکڑے
گھر میں تتلی کی طرح سے گھوُمتا پھرتا
مگر پھر جلد ہی تجھ کو
پرندوں اور پھولُوں
اور پھر ہمجولویوں کے پاس سے ایسا بلاوا آ گیا
جس کو پا کر
مری اُنگلی چھُڑا کر
تو ہجومِ رنگ میں خوشبو کی صورت مِل گیا
پھر اس کے بعد خوابوں سے بھرا بستہ لیے
اسکول کی جانب روانہ ہو گیا تُو
جہاں پر رنگ اور پھر حرف اور پھر ہندسے
اور سو طرح کے کھیل تیرے منتظر تھے
دِل لبُھاتے تھے
تِرے استاد مجھ سے معتبر تھے
دوست مجھ سے خوُب تر تھے
مجھے معلوم ہے
میں تُجھ سے پیچھے رہ گئی ہوں
سفر اب جتنا باقی ہے
وہ بس پسپائی کا ہی ہے
تری دنیا میں اب ہر پل
نئے لوگوں کی آمد ہے
میں بے حد خامشی سے
اُن کی جگہیں خالی کرتی جا رہی ہوں
تِرا چہرہ نکھرتا جا رہا ہے
میں پس منظر میں ہوتی جا رہی ہوں
زیادہ دِن نہ گذریں گے
مرے ہاتھوں کی یہ دھیمی حرارت
تجُھے کافی نہیں ہو گی
کوئی خوش لمس دستِ یاسمیں آ کر
گلابی رنگ کی حدّت
تیرے ہاتھوں میں سمو دے گا
مرا دِل تجھ کو کھو دے گا
میں باقی عمر
تیرا راستہ تکتی رہوں گی
میں جانتی ہوں
میں ماں ہوں۔۔۔۔
اور مری قسمت جدائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: دو ایک جگہ وزن کے مسائل ہیں اگر کسی کے پاس یہ نظم کتاب میں موجود ہو تو نشاندہی کر دے۔