الف عین
لائبریرین
دل تو جانے کہاں تک تیرے خیالوں میں گیا
میں مگر آج بھی جذبات سے باہر نہ گیا
//’کہاں تک‘ بر وزن ’فعِلا‘ درست نہیں، اس کے علاوہ جذبات سے باہر والی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس شعر کو بدل دو تو سوچیں۔
ترقی کرتے ہوئے قوم ستاروں پہ گئی
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا
//ترقی کا تلفظ؟ یہاں ’ارتقا‘ آ سکتا ہے۔ لیکن محاورے کے حساب سے ’ستاروں تک پہنچی‘ کہنا چاہئے تھا۔
قوم تو پہنچی ستاروں پہ، ترقی کر کے
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا
کر دو
رسمِ فرہاد وہی، میر کے اشعار وہی
میں محبت میں روایات سے باہر نہ گیا
//رسمِ فرہاد؟ اس کی جگہ اگر اور علامتی اظہار ہو تو۔
دودھ کی نہر وہی، میر کے اشعار وہی
آگے بڑھنے کی لگن سے میں ستاروں پہ گیا
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا
//یہ تو دہرانے والی بات ہے، اس شعر کی ضرورت نہیں۔
میں مگر آج بھی جذبات سے باہر نہ گیا
//’کہاں تک‘ بر وزن ’فعِلا‘ درست نہیں، اس کے علاوہ جذبات سے باہر والی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ اس شعر کو بدل دو تو سوچیں۔
ترقی کرتے ہوئے قوم ستاروں پہ گئی
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا
//ترقی کا تلفظ؟ یہاں ’ارتقا‘ آ سکتا ہے۔ لیکن محاورے کے حساب سے ’ستاروں تک پہنچی‘ کہنا چاہئے تھا۔
قوم تو پہنچی ستاروں پہ، ترقی کر کے
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا
کر دو
رسمِ فرہاد وہی، میر کے اشعار وہی
میں محبت میں روایات سے باہر نہ گیا
//رسمِ فرہاد؟ اس کی جگہ اگر اور علامتی اظہار ہو تو۔
دودھ کی نہر وہی، میر کے اشعار وہی
آگے بڑھنے کی لگن سے میں ستاروں پہ گیا
اور تو پچھلی خرافات سے باہر نہ گیا
//یہ تو دہرانے والی بات ہے، اس شعر کی ضرورت نہیں۔