آبی ٹوکول
محفلین
وہ انتہائے عشق تھی کہ نور بے حساب تھا
میں قید و بند وقت سے آزاد اس صدی میں تھا
وہ دور مصطفٰی تھا ، میں مدینہ نبی میں تھا
وہ دور مصطفٰی تھا ، میں مدینہ نبی میں تھا
آنے والے دور کا ہے امتی گناہگار
ہند سے یہ ہے حضور، ہے مگر سیاہ کار
مسکرا کہ آپ نے کہا کہ روکنا نہیں
امتی ہے اور وہ بھی آنے والے دور کا
طے ہوا عصر کے بعد ہوگی میری حاضری
روبرو نبی کے پاس ،ہوگی میری حاضری
تصور عدالت نبی کیا، تو ڈر گیا
کہ جاکے کیا کہوں گا میں تو سوچ کہ ہی مرگیا
صحابی رسول نے کہا کہ بیٹھ جا یہاں
محفل حضور کے اصول سیکھ لے ذرا
بیٹھنا سکھا رہے تھے مجھکو وہ کہ اس طرح
چل کہ بھی دکھا رہے تھے مجھکو وہ کہ اس طرح
یہ بھی کہہ رہے تھے خوامخواہ سے منہ نہ کھولنا
بول کے بتا رہے تھے ، اس طرح سے بولنا
وہ خوش نصیب لوگ تھے جو دور مصطفٰی میں تھے
فضا بھی خوش نصیب تھی زمیں بھی خوش نصیب تھی
نیا نیا سا کھلا کھلا سا نیلا آسمان تھا
پرانی طرز پر بنے نئے نئے مکان تھے
کئی گھروں میں اونٹ تھے کئی گھروں میں بکریاں
پک رہا تھا کچھ جہاں پہ جل رہی تھیں لکڑیاں
اتنے میں اذاں ہوئی تو رونگٹے کھڑے ہوئے
دل کہ جیسے کھل گئے ہوں تالے سب پڑے ہوئے
وہ آسماں کا راگ تھا وہ دعوت بلال تھی
میرے لیے تو دعوت وصالی جمال تھی
دھو لیا نہا کہ میں نے وضو بھی بنا لیا
نسبت حضور میں نے عود بھی لگا لیا
گھر سے ہم نکل پڑے صحابی رسول کے
جارہے تھے سب ہی سمت مسجد رسول کے
وہ دھڑکنیں عجیب تھیں وہ کپکپی کمال تھی
کہ آنکھ اشکبار تھی سراپا ملال تھی
روح تھی کہ دید کی تڑپ تڑپ تڑپ تڑپ
دل میرا دھڑک دھڑک دھڑک دھڑک دھڑک دھڑک
ہر قدم پہ گھٹ رہا تھا فاصلہ حضور سے
ہر قدم پہ گھٹ رہا تھا فاصلہ حضور سے ۔۔
صلی اللہ علیہ وسلم ، صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،
صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،
صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،صلی اللہ علیہ وسلم ،
نوٹ:- ابھی شاید یہاں تک ہی لکھی گئی ہے ۔۔
۔