میں نہ راوی ہوں نہ چناب ہوں

پاکستانی

محفلین
میں خیال ہوں کبھی خواب ہوں
میں کہیں نہیں ہوں، سراب ہوں
جو بکھر گیا، میں وہ لفظ ہوں
جو الجھ گیا وہ حساب ہوں
میرے دکھ پہ یوں نہ سوال کر
مجھے ڈھونڈ تیرا جواب ہوں
جسے تو نے پڑھ تو لیا مگر
نہ سمجھ سکی ، وہ کتاب ہوں
میرے ساتھ گلوں کی جوانیاں
میں بہار غم کا شباب ہوں
تو بہشت تھی نہ مل سکی
میں ابھی بھی زیر عذاب ہوں
میں ہوں نیک دل ذرا تلخ گو
میں مثل عمدہ شراب ہوں
میں تو تشنگی کی ہوں موج حر
میں نہ راوی ہوں نہ چناب ہوں​
 
Top