میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں - اسلم انصاری

فرخ منظور

لائبریرین
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں

بے نیازی سے سبھی قریہء جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں

(اسلم انصاری)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیئے!

غلام عباس کی گائی ہوئی چند بہترین غزلوں میں سے ہے یہ غزل:

[ame]http://www.youtube.com/watch?v=mKqKGPK6AXo[/ame]
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب اور یقیناً غلام عباس نے بہت اچھی گائی ہے میری تو پسندیدہ غزل ہے غلام عباس کی آواز میں - بہت شکریہ ویڈیو پوسٹ کرنے کے لیے-
 
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹجہرا بھی نہیں -اسلم انصاری

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹجہرا بھی نہیں

حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ھے کوئی

تم چلے ھو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شور زنجیر

اور صحرا میں کوئی نقش کف پا بھی نہیں

بے نیازی سے سبھی قریہء جاں گزرے

دیکھتا کوئی نہیں ھے کہ تماشا بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا

تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

کس کو نیرنگی ایام کی صورت دکھلائیں

رنگ اڑتا بھی نہیں نقش ٹھہرتا بھی نہیں

اسلم انصاری
 

تنویرسعید

محفلین
جھوٹ

اب تیری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھکو
زخم کھولتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھکو
اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں
جھوٹ بولوں ندامت نہیں ہوتی مجھکو
 

زونی

محفلین
بہت خوب فرخ بھائی ساری غزل ہی اچھی ھے ، آڈیو ابھی سن نہیں سکتی لیکن پہلے سن رکھی ھے ۔
شکریہ پوسٹ کرنے کیلئے ۔:)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں

کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں

واہ۔۔۔۔ بہت خوب
بہت شکریہ سخنور! :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
کتاب خواب و آگہی از اسلم انصاری سے دیکھ کر یہ غزل مکمل کی گئی

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں

جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں

دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ زنجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں

گُل بہ ہر رنگ، تبسم کا گہنہ گار رہا
زخمِ ہستی کے سوا اس کے مداوا بھی نہیں

کون سا موڑ ہے کیوں پاؤں پکڑتی ہے زمیں
اُس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں

بے نیازی سے سبھی قریۂ جاں سے گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

اب تو اِک رات ہے ہجراں کی دل و جاں پہ محیط
صبح کیسی، کہ ترے بعد اجالا بھی نہیں

اِک مسافر کہ جسے تیری طلب ہے کب سے
احتراماً ترے کوچے سے گزرتا بھی نہیں

کس کو نیرنگیِ ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں

یا ہمیں کو نہ ملا اُس کی حقیقت کا سراغ
یا سرا پردۂ عالم میں کوئی تھا ہی نہیں

1961ء
(اسلم انصاری)

غلام عباس کی آواز میں
[
 
آخری تدوین:

کس کو نیرگئی ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں

(اسلم انصاری)


کس کو نیرگیِ ایّام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں، نقش ٹھہرتا بھی نہیں


ٹائپو ہے درست کرلیجیے۔
کس کو نیرنگئ ایّام کی صورت دِکھلائیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
آخری تدوین:
Top