کاشفی

محفلین
غزل
(نواب ناظم علی خاں)
میں نے کہا کہ دعویٰ اُلفت مگر غلط
کہنے لگے کے ہاں غلط ا ور کس قدر غلط

تاثیر آہ و زاری شب ہائے تار جھوٹ
آوازہء قبول دْعاے ءسحر غلط

ہاں سینے میں نمائش داغ دروں، دروغ
ہاں آنکھ سےتراوش خونِ جگر غلط

آجائے کوئی دم میں تو کیا کچھ نہ کیجئے
عشق مجاز و چشم حقیقت مگر غلط

بوس و کنار کے لیے ء یہ سب فریب ہیں
اظہار پاکبازی و ذوقِ نظر غلط

اوصافِ آفتاب کہاں اور ہم کہاں
احمق بنیں ہم اس کو نہ سمجھیں اگر غلط

سینے میں اپنے جانتے ہو تم کے دل نہیں
ہم کو سمجھتے ہو کہ ہے انکی کمر غلط

کہنا ادا کو تیغ خوشامد کی بات ہے
سینے کو اپنے اس کی سمجھنا سپر غلط

مٹھی میں کیا دھری تھی کہ چپکے سے سونپ دی
جانِ عزیز پیش کشِ نامہ بر غلط

ہم پوچھتے پھریں کہ جنازہ کدھر گیا
مرنے کی اپنے روز اُڑائی خبر غلط

آیت نہیں حدیث نہیں جس کو مانتے
ہے نظم و نثر اہلِ نظر سر بسر غلط

یہ کچھ سنا جواب میں ناظم ستم کیا
کیوں یہ کہا کہ دعویٰء الفت مگر غلط
 
Top