[align=justify:3fa6d179d8]
رحمت : یہ دو برتن تو آٹھ آنے کے بھی نہیں ہیں ، بچی کے ہاتھ میں چاندی کی چُوڑیاں بھی تو ہیں وہ دیدو ۔“
مَیں : بُوا رحمت ! تم قسم کھا سکتی ہو کہ تمہارے روپے بیگم پر ہیں ۔“
رحمت : سو دفعہ ، مسجد میں رکھ دو ، قُرآن پر رکھ دو ، دیکھو اُٹھا لیتی ہُوں یا نہیں ، قرضہ نہ سہی تنخواہ سہی ۔ میں جو ان کے ہاں روز سوتی تھی تو کیا مفت سوتی تھی ، ان کے باوا دادا کی نوکر تھی ۔“
اتنا کہہ کر ظالم عورت نے بچی کو ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا اور بلکتی ہُوئی بچی کی چُوڑیاں اُتار لیں ، ہر چند بیگم نے ہاتھ جوڑے اور میں نے خوشامد کی مگر وہ سنگدل نہ پسیجی اور چُوڑیاں لے کر چلتی ہُوئی ۔ میں بھی اس کے بعد تھوڑی دیر بیگم کے پاس بیٹھی ۔ اُس کی آنکھ سے کسی طرح آنسو نہ تھمتا تھا ۔ دُنیا کا جو دستُور ہے اُس کے موافق میں بھی سمجھا بُجھا کر اپنے گھر گئی ۔ شام کے وقت جب میں بیٹا بیٹیوں ، بہُوؤں اور دامادوں کے سلام سے فارغ ہوگئی تو بیگم کے پاس پہنچی ۔
جاڑوں کے دن تھے اور مَلمَل کے اکہرے دوپٹہ میں بیگم اپنی بُخار زدہ بچی کو لئے اندھیرے گُھپ میں بیٹھی سُکڑ رہی تھی ۔ میری آواز سُنتے ہی بچی دوڑی ہُوئی آئی ، پاؤں سے لپٹ گئی اور کہنے لگی ،
”اچھی اماں ! میری چُوڑیاں دے دو۔“
بچی کا کہنا میرے کلیجے میں تیر کی طرح گُھس گیا ۔ میں نے اُسے گود میں اُٹھا لیا ، تو وہ بُخار میں بُھن رہی تھی ۔ میں اُس معصوم کو گود میں لئے ہُوئے اپنے گھر آئی ۔ لالٹین لے کر بیگم کے یہاں پہنچی تو وہ عِصمت کی دیوی حسرت سے میرا منہ تکنے لگی ۔ برس کا برس دن تھا اور یہ قدرت کا بہترین نمونہ جس کی عُمر اکیس بائیس برس سے زیادہ نہ ہوگی ، خُود غرض مردوں کی جان کو بیوگی کے آنسوؤں سے رو رہی تھی ۔ معصوم بچی رہ رہ کر بُخار میں اُچھل رہی تھی اور اپنی چُوڑیوں کو یاد کر رہی تھی ۔
اس بچی پر جو کچھ ستم ایک ظالم عورت کے ہاتھ سے ٹُوٹے ، مَرنے کے بعد بھی اس کو نہ بُھولوں گی ۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میری عُمر کے یہ دونوں واقعے عورت کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کیسا مُبارک ہو گا وہ وقت جب ہم میں وہ عورتیں پیدا ہوں گی جو احسان فراموشی کی جانی دُشمن اور اپنی بہنوں کی سچی خدمت گُذار ہوں گی ۔[/align:3fa6d179d8]
(1914ء)
--×-------- اختتام --------×---