غدیر زھرا
لائبریرین
میں وقت کے دریا میں تنّفس کا بھنور ہوں
بہتی ہُوئی لہروں پہ اُچٹتی سی نظر ہوں
کیا جانے کب آغوشِ رواں مجھ کو نِگل لے
امید کی منجدھار میں سرگرمِ سفر ہوں
میں ہوں کہ تری ہستئ پنہاں کی خبر ہوں
اے دیدۂ نادیدہ ترے پیشِ نظر ہوں؛
کیا کیا نہ کرم ہوں گے ترے مجھ پہ، میں آخر
اے شُومئی قسمت ترا منظورِ نظر ہوں
کیا غم ہے کہ ہوں عزم کی تقدیرِ حسیں بھی
میں راہروِ جادۂِ آلام— اگر ہوں
بِس گھولتے آئینۂ آتش کے دُھوئیں میں
کونپل کی طرح پُھوٹا ہوا عکسِ سحر ہوں
خلوت کے سمندر کی سدا جاگتی تہہ میں
برسوں سے جو مانُوسِ صدف ہو وہ گُہر ہوں
تم دن کے ڈسے منتظرِ ظُلمتِ شب ہو
میں شب کا ڈسا منتظرِ شمع قمر ہوں
کیا کیا تھے وہ طوفان جو جھیلے ہیں یہ سوچو
قبل اس کے کہ تم پوچھو میں کیوں خاک بسر ہوں
(تخت سنگھ)
بہتی ہُوئی لہروں پہ اُچٹتی سی نظر ہوں
کیا جانے کب آغوشِ رواں مجھ کو نِگل لے
امید کی منجدھار میں سرگرمِ سفر ہوں
میں ہوں کہ تری ہستئ پنہاں کی خبر ہوں
اے دیدۂ نادیدہ ترے پیشِ نظر ہوں؛
کیا کیا نہ کرم ہوں گے ترے مجھ پہ، میں آخر
اے شُومئی قسمت ترا منظورِ نظر ہوں
کیا غم ہے کہ ہوں عزم کی تقدیرِ حسیں بھی
میں راہروِ جادۂِ آلام— اگر ہوں
بِس گھولتے آئینۂ آتش کے دُھوئیں میں
کونپل کی طرح پُھوٹا ہوا عکسِ سحر ہوں
خلوت کے سمندر کی سدا جاگتی تہہ میں
برسوں سے جو مانُوسِ صدف ہو وہ گُہر ہوں
تم دن کے ڈسے منتظرِ ظُلمتِ شب ہو
میں شب کا ڈسا منتظرِ شمع قمر ہوں
کیا کیا تھے وہ طوفان جو جھیلے ہیں یہ سوچو
قبل اس کے کہ تم پوچھو میں کیوں خاک بسر ہوں
(تخت سنگھ)