یوسف-2
محفلین
برادرم! آپ کی بات بیک وقت درست بھی ہے اور غلط بھییہ لقمان صاحب بھی عجیب تھے۔ کوئی کچھ واقعہ بیان کرتا ہے، کوئی کچھ۔ اور تو اور اگر آپ واقعات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو لگے گا کہ یہ اک دور کے واقعات ہیں ہی نہیں
اب میرے جیسا تو الجھ جاتا ہے ان باتوں میں۔
ویسے تو آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ حضرت لقمان یا ان جیسے دیگر ”تاریخی کرداروں“ کے حوالہ سے اتنی حکایتیں مختلف النوع کی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ آپ جیسا ہر صاحب علم الجھھ جاتا ہے کہ یہ ساری باتیں اور حکایتیں کیسے ”درست“ ہوسکتی ہیں۔ لیکن آپ اگر اسی بات کو ذرا دوسرے رُخ سے دیکھئے۔ تاریخ اور تاریخی واقعات ایک الگ چیز ہے اور اصلاحی حکایات ایک جدا شئے۔ اصلاحی حکایات بالعموم سچی، تاریخی اور تخلیقی و فرضی ملی جلی ہوتی ہیں۔ ان حکایات کے بیان کا مقصد ”تاریخ گوئی“ نہین بلکہ ان کا اصل مقصد سچی یا گھڑی ہوئی عام فہم کہانیون کے ذریعہ عوام الناس کو ”اصلاح“ کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ جیسے کسی افسانہ اور ناول کے کردار و واقعات سچے بھی ہوسکتے ہیں اور رائٹر کی ذہنی تخلیق بھی۔ لیکن ہر دو صورت میں افسانہ و ناول کا مرکزی نکتہ یا سبق ”سود مند اور سبق آموز“ ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا آئندہ ایسی پیاری پیاری حکایات و کہانیاں پڑھتے ہوئے آپ اس کے تاریخی طور پر سچے یا فرضی ہونے کی طرف دھیان نہ دیں بلکہ اس کے مرکزی خیال کو دیکھیں کہ یہ کتنا سبق آموز ہے۔