کاشف اسرار احمد
محفلین
اساتذہ اکرام کے سامنے اصلاح کے لئے ایک غزل حاضر ہے .....
یوں زیست کے مزے لئے اس آشنا کے ساتھ
صد رنج و سو عذاب سہے ابتلا کے ساتھ
تائید میں اس نے میری کہا، اک عمر ہم رہے
پتھر انا کے ڈھوتے ہوئے ، فاصلوں کے ساتھ
میں نے چھپا کے رکھی تھی لمحوں کی پوٹلی
اس میں تھا وقت ، گزرا جو اس ماہ جبیں کے ساتھ
رخ پر اس کے مچلے تھیں زلفوں کی بدلیاں
مہتاب کھیلتا تھا اک کالی گھٹا کے ساتھ
بر لب دعا تھا میں اور اُس کو بھی جستجو
رشتہ تھا ، برگ صحرا کا جیسے گھٹا کے ساتھ
تب آتا لطف کاشف جب وہ ہم مشرب وفا
جاتا پلٹ کے گھر کو کچھ دور دے کے ساتھ
آپ کی آرا اور مشوروں کا منتظر رہونگا
شکریہ
کاشف
یوں زیست کے مزے لئے اس آشنا کے ساتھ
صد رنج و سو عذاب سہے ابتلا کے ساتھ
تائید میں اس نے میری کہا، اک عمر ہم رہے
پتھر انا کے ڈھوتے ہوئے ، فاصلوں کے ساتھ
میں نے چھپا کے رکھی تھی لمحوں کی پوٹلی
اس میں تھا وقت ، گزرا جو اس ماہ جبیں کے ساتھ
رخ پر اس کے مچلے تھیں زلفوں کی بدلیاں
مہتاب کھیلتا تھا اک کالی گھٹا کے ساتھ
بر لب دعا تھا میں اور اُس کو بھی جستجو
رشتہ تھا ، برگ صحرا کا جیسے گھٹا کے ساتھ
تب آتا لطف کاشف جب وہ ہم مشرب وفا
جاتا پلٹ کے گھر کو کچھ دور دے کے ساتھ
آپ کی آرا اور مشوروں کا منتظر رہونگا
شکریہ
کاشف
آخری تدوین: